From Wikipedia, the free encyclopedia
شمالی قطب سے عموماً جغرافیائی شمالی قطب مراد لی جاتی ہے، اگرچہ شمالی قطب کئی قسم کے ہیں۔ جغرافیائی شمالی قطب سے مراد زمین کا شمالی ترین نقطہ ہے یعنی °90 درجے شمالی عرض بلد۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے آپ جس طرف کو بھی چل پڑیں آپ جنوب ہی کی طرف جا رہے ہوں گے۔ قطب نما اس جغرافیائی شمالی قطب کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ مقناطیسی شمالی قطب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شمالی قطب 5 قسم کے ہیں جومندرجہ ذیل ہیں:
ان تمام مختلف تعریفوں کے مطابق شمالی قطب کو بحری سفر کے لیے اور صحرا میں سفر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کل ان کا استعمال فلکیات دان، ریاضی دان اور ارضی علوم کے ماہرین کثرت سے کرتے ہیں۔ زمین کے جتنے نقشے بنتے ہیں وہ جغرافیائی شمالی قطب کو مدِنظر رکھ کر بنتے ہیں، اسی لیے اسے صحیح شمالی قطب بھی کہتے ہیں۔ قابلِ تصدیق ریکارڈ کے مطابق پہلی دفعہ 1909ء میں کوئی انسان اس تک پہنچ سکا تھا۔
قطب شمالی کو کوئی ٹائم زون تفویض نہیں کیا گیا ہے، لہذا کسی بھی وقت کو مقامی وقت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنگ عرض بلد دائروں کے ساتھ، مخالف گھڑی کی سمت مشرق اور گھڑی کی سمت مغرب میں ہے۔ قطب شمالی شمالی نصف کرہ کے مرکز میں ہے۔ قریب ترین زمین کو عموماً کافیکلوبن جزیرہ کہا جاتا ہے، جو گرین لینڈ کے شمالی ساحل سے تقریباً 700 کلومیٹر (430 میل) دور ہے، حالانکہ کچھ شاید نیم مستقل بجری کے کنارے قدرے قریب ہیں۔ قریب ترین مستقل طور پر آباد مقام الیسمیر Ellesmere جزیرہ، کینیڈا پر الرٹ ہے، جو قطب سے 817 کلومیٹر (508 میل) دور واقع ہے۔ جب کہ قطب جنوبی ایک براعظمی زمین پر واقع ہے، قطب شمالی بحرِ آرکٹک کے وسط میں ایسے پانیوں کے درمیان واقع ہے جو تقریباً مستقل طور پر مسلسل بدلتی ہوئی سمندری برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ قطب شمالی پر سمندر کی گہرائی کو روسی میر آبدوز نے سنہ 2007ء میں 4,261 میٹر (13,980 فٹ)[1] اور سنہ 1958ء میں یو ایس ایس ناٹیلس نے 4,087 میٹر (13,409 فٹ) پر ناپا ہے۔[2] یہ قطب شمالی (قطب جنوبی کے برعکس) پر ایک مستقل اسٹیشن کی تعمیر کو ناقابل عمل بنا دیتا ہے۔ تاہم، سوویت یونین اور بعد میں روس نے سنہ 1937ء کے بعد سے عام طور پر سالانہ بنیادوں پر متعدد انسان بردار ڈرفٹنگ اسٹیشن بنائے، جن میں سے کچھ قطب کے اوپر سے یا بہت قریب سے گذر چکے ہیں۔ سنہ 2002ء کے بعد سے، روسیوں کے ایک گروپ نے بھی قطب کے قریب ایک نجی اڈا، بارنیو قائم کیا ہے۔ یہ ابتدائی موسم بہار میں چند ہفتوں تک چلتا ہے۔ سنہ 2000ء کی دہائی میں ہونے والے مطالعات نے پیش گوئی کی ہے کہ قطب شمالی موسمی طور پر برف سے پاک ہو سکتا ہے کیونکہ آرکٹک کی برف سکڑتی ہے، جس کے اوقات سنہ 2016ء سے لے کر اکیسویں صدی کے آخر تک یا بعد میں مختلف ہو سکتے ہیں۔[3]
قطب شمالی تک پہنچنے کی کوششیں انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئیں، "سب سے دور شمال" کے ریکارڈ کو متعدد مواقع پر پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ قطب شمالی تک پہنچنے والی پہلی غیر متنازع مہم ایئر شپ نورج کی تھی، جس نے سنہ 1926ء میں اس علاقے کو عبور کیا جس میں 16 افراد سوار تھے، بشمول مہم جو رہنما روالڈ ایمنڈسن۔ تین سابقہ مہمات؛ جن کی قیادت فریڈرک کک (سنہ 1908ء، زمین)، رابرٹ پیری (سنہ 1909ء، زمین) اور رچرڈ ای برڈ (سنہ 1926ء، ہوائی)، کو بھی ایک بار قطب تک پہنچنے کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ تاہم، ہر معاملے میں بعد میں مہم کے اعداد و شمار کے تجزیے نے ان کے دعووں کی درستی پر شک پیدا کیا ہے۔ قطب شمالی تک پہنچنے کے لیے پہلی تصدیق شدہ سمندری مہم سنہ 1968ء میں رالف پلیسٹڈ، والٹ پیڈرسن، گیری پتزل اور جین۔لک بمبارڈیئر نے سنو موبائلز کا استعمال کرتے ہوئے اور فضائی مدد سے کی تھی۔[4]
جغرافیائی شمالی قطب سے مراد زمین کا شمالی ترین نقطہ ہے یعنی °90 درجے شمالی عرض بلد۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے زمین کا گردشی محور زمین کی شمالی سطح سے ٹکراتا ہے۔ گردشی محور وہ فرضی لکیر ہے جس پر زمین اپنے اردگرد گردش کرتی ہے۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے آپ جس طرف کو بھی چل پڑیں آپ جنوب ہی کی طرف جا رہے ہوں گے۔ اسے صحیح شمالی قطب بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی شمالی قطب شمالی بحر منجمد شمالی میں واقع ہے مگر اس پر برف کی موٹی تہ جمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس پرمستقل تجربہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مقناطیسی قطب نما اس کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ مقناطیسی شمالی قطب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس سے سینکڑوں کلومیٹر دور بھی ہے اور بدلتا بھی رہتا ہے۔ جغرافیائی شمالی قطب چونکہ برف پر واقع ہے اور برف بہت غیر محسوس طریقہ سے کھسک رہی ہے اس لیے ادھر قائم تجربہ گاہیں حرکت کر کے شمالی قطب سے ہٹ جاتی ہیں۔ اسی لیے کچھ سالوں کے بعد انھیں بھی منتقل کرنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ خود جغرافیائی شمالی قطب ایک جگہ نہیں بلکہ اس میں بہت معمولی تبدیلی آتی ہے۔ یعنی زمین لرزتی ہے۔ زمین کا گردشی محور کچھ میٹر تک حرکت کر سکتا ہے اور اس بات کو چانڈلر کا ارتعاش (Chandler wobble ) کہتے ہیں۔ گرمیوں میں چوبیس گھنٹے کا دن ہوتا ہے اور سردیوں میں چوبیس گھنٹے کی رات۔ 20 یا 21 مارچ کو سورج چھ ماہ کے لیے نکلتا ہے جس نے جون کے مہینے تک چڑھتے رہنا ہے۔ بیس جون کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے۔ 23 ستمبر کو سورج مکمل غروب ہو جاتا ہے جس کے بعد چھ ماہ کے لیے رات رہتی ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.