ہند آریائی اور ایرانی زبانیں
From Wikipedia, the free encyclopedia
باہمی مشابہت قدیم ہند آریائی اور ایرانی میں اتنی نمایاں مشابہت ہے کہ دونوں کا آپس میں محض بولیوں کا تعلق ہے۔ ایران کی مذہبی زبان اوستا کا کوئی مصرع بھی حروف بحروف مشابہہ سنسکرت کے الفاظ میں آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، صرف چند حروف میں اختلاف نظر آتا ہے۔ مثلاً اوستا کا مندرجہ ذیل مصرع۔ ”یودوآپو ون دہیش یزئی تے أہ راینیش اہ رُہے ومشتابیوِزوتھرابیو سراشتیا بیوِ زوتھرابیواہمیَ تنوود۔ دَتَاتم د ستَ“۔ قدیم ہند آریائی میں مندرجہ شکل میں ہوگا۔ ”یودوآپو دسویشیجاتے اُسراء ینش اُسریسہ دشسٹھابھیو ہو تھرابیو شریشٹھابھیو ہوترا بھیو اسمئی رییش چ اسمئی تنود دُھروتاتمدتتھَ ۔ ’اُس شخص کو دولت۔ اُس شخص کو مستقل جسمانی طاقت دیجئیے جو نیک بخت بانیوں کی تنظیم کرتا ہے‘۔ اس مصرع میں زیادہ تر یہی فرق ہے کہ اوستاکی ’ہ‘ کے بل مقابل ہند آریائی میں دم کشیدہ حروف صیح ہیں۔ قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی کی باہمی مشابہت کے نقطے مندرجہ ذیل ہیں۔
- (1) قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی کے مفرد حروف علت تقریباً ایک ہی ہیں۔ یعنی ’أ، آ، اِ، اُ، اُو‘۔* (2) قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی میں حروف علت کا ’گُن‘ ہوجاتا ہے۔ ’اِ، ای‘ کا گُن ’اے‘ اور ’اُ، اُو‘ کا گُن ’او‘ ہے۔* (3) دونوں کے حروف علت میں بہت مطابقت ہے۔ مثلاً دونوں میں ’أ +أ‘ کا ’آ‘، ’اِ + اِ‘ کی ’ای‘، ’اُ + اُ‘ کا ’اُو‘ ہوجاتے ہیں۔* (4) دونوں غیر مصیبت حروف صیح ’ت پ چ‘ مشابہہ الفاظ میں مستعل ہوتے ہیں۔ مثلاََ
اس مضمون یا قطعے کو ہند۔آریائی زبانیں میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |