اسر
From Wikipedia, the free encyclopedia
اسر (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب شیطان بھی نکلتا ہے۔ اواخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسروں سے روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسر ‘ کا ’ سور ‘ یعنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور شیطانی نہیں سمجھے جاتے ہیں اسر کہلاتے ہیں ۔
اسر سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسر دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسر کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسر بطور دیوتا اور بطور ان کے مد مخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسر دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے چھوٹ ترک کر دیا اور اسر سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسر اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسر اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسر کی اصلاح دشمن مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لے ے استعمال ہونے لگی ۔