برکینا فاسو
From Wikipedia, the free encyclopedia
برکینا فاسو (/bərˈkiːnə [invalid input: '،']fɑːsoʊ/ ( سنیے) bər-KEE-nə FAH-soh; فرانسیسی: [buʁkina faso])مغربی افریقہ کا خشکی سے گھرا ہوا ایک ملک ہے جس کا کل رقبہ 2٫74٫200 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے اطراف میں چھ ممالک واقع ہیں، شمال میں مالی، مشرق میں نائجر، جنوب مشرق میں بینن، ٹوگو اور گھانا جنوب میں جبکہ جنوب مغرب میں آئیوری کوسٹ واقع ہے۔ اس کا دار الحکومت اواگا ڈوگو ہے۔ 2014 میں یہاں کی کل آبادی 1 کروڑ 73 لاکھ تھی۔[3]
برکینا فاسو | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(فرانسیسی میں: Unité–Progrès–Justice) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 12°16′00″N 2°04′00″W [1] |
بلند مقام | |
پست مقام | |
رقبہ | |
دارالحکومت | اواگادوگو |
آبادی | |
حکمران | |
طرز حکمرانی | جمہوریہ |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 1960 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | |
شرح بے روزگاری | |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت±00:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [2] |
ڈومین نیم | bf. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | BF |
بین الاقوامی فون کوڈ | +226 |
درستی - ترمیم |
ماضی میں میں اسے جمہوریہ اپر وولٹا کہا جاتا تھا اور 4 اگست 1984ء کو اس کا نام بدل کر برکینا فاسو رکھا گیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کے صدر تھامس سنکارا نے کیا۔ برکینا فاسو کے شہریوں کو برکینا بے (/bərˈkiːnəbeɪ/ bər-KEE-nə-bay) کہا جاتا ہے۔ سرکاری اور کاروباری زبان فرانسیسی ہے۔
موجودہ برکینا فاسو میں فرانسیسی اور دیگر نوآبادیاتی طاقتوں کی انیسویں صدی میں تسخیر سے قبل یہاں مختلف مقامی قبائل آباد تھے جن میں موسی سلطنت اہم ہے۔ فرانس سے 1960ء میں آزادی پانے کے بعد ملک میں کئی حکومتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اکتوبر 2014ء سے ستمبر 2015ء تک نیم صدارتی نظام رائج رہا۔ بلیز کومپار یہاں کے آخری صدر تھے جو 1987ء سے برسرِ اقتدار تھے۔[4] تاہم ان کی حکومت کا تختہ 31 اکتوبر 2014ء کو نوجوانوں کی تحریک نے الٹ دیا۔[5] 17 ستمبر 2015ء کو فوج نے بغاوت کر کے عبوری حکومت ختم کر دی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔[6]