بھارت میں ہجومی تشدد
ہندوستان میں ہجومی تشدد کی قدیم و جدید تاریخ / From Wikipedia, the free encyclopedia
بھارت کی تاریخ میں ہجومی تشدد کی وارداتیں عرصۂ قدیم سے چلی آرہی ہیں۔ ان واقعات کی وجوہات ہر دور میں مختلف رہیں ہیں۔ چوں کہ بھارت کی سرزمین پر ایک ایسا تکثیری معاشرہ آباد رہا ہے جس میں ذات پات اور چھوت چھات کے نظام کو اہل مذہب کی پشت پناہی حاصل رہی، لہٰذا اعلیٰ ذات کے اشخاص یا شرفا چھوٹی امت کے افراد کو ان کی معمولی لغزشوں کی بنا پر بے جا تشدد کا نشانہ بناتے اور انھیں سخت زدوکوب کرتے آئے ہیں۔ بسا اوقات یہ معمولی لغزشیں کوئی غلطی نہیں بلکہ ایک انسانی عمل ہوتا جس کی پاداش میں مبینہ ملزم کو پیٹ پیٹ کر ابدی نیند سُلا دیا جاتا۔ ہجومی تشدد کی کچھ وجوہات قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہیں اور بعض جدید دور میں سیاسی مفادات کے تحت سامنے آئی ہیں۔ قدیم وارداتوں میں توہمات یا سماجی روایتوں کے زیر اثر اور مخصوص انداز میں کسی گروہ کے تشدد پر اتر آنے کے واقعات ملتے ہیں جبکہ موجودہ دور میں بچوں کے اغواء یا ان کی چوری، سماج کے مختلف طبقوں کے بیچ پائی جانے والی یا پھیلی ہوئی نفرت، ناجائز جنسی تعلقات، مذہبی عداوت اور اسی قسم کی دیگر فرضی خبروں کی سماجی ذرائع ابلاغ پر نشر و اشاعت سے برپا ہونے والے تشدد کے واقعات زیادہ ہیں۔ نیز موجودہ دور کے بھارت میں کسی ایک مخصوص برادری کے افراد پر مزعومہ گاؤ کشی یا گایوں کی خرید و فروخت کا الزام عائد کرکے انھیں وحشیانہ ہجومی تشدد کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارنے کی سینکڑوں وارداتیں بھی سامنے آئی ہیں۔
ہجومی تشدد کی ایک اور قسم ذات پات پر مبنی تشدد ہے۔ اس میں پسماندہ طبقات پر کیا جانے والا تشدد یا قبائلی آبادی کو ڈرانے دھمکانے اور ان کی جائداد ہتھیانے سے جڑا تشدد شامل ہے۔ کبھی کبھی کسی معمولی جرم کے رد عمل کے طور پر بھی تشدد دیکھا گیا ہے، مثلاً کسی چور کے پکڑے جانے پر کسی ہجوم کا اس پر ٹوٹ پڑنا یا اسی طرح کسی پر جھوٹا الزام لگانے یا لگنے کے بعد لوگوں کا کسی پر حملہ کرنا۔ بھارت میں ہجومی تشدد کے شکار بیش تر افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگر یہ افراد زندہ بچ جائیں تو شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔
خبروں کے مطابق بھارت میں نریندر مودی کی پہلی حکومت کے قیام کے بعد ہجومی تشدد کی وارداتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔[1] بعض مبصرین کے نزدیک اس اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ ان وارداتوں کے مجرم یا ملزمان عموماً عدالتوں سے کم زور پیروی کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں یا پھر اولین کوششوں ہی میں یعنی تھانوں اور ایف آئی آر کی شروعاتی سطح پر ہی کوئی خاص کار روائی نہیں کی جاتی ہے، جس سے جرم کی قانونی سزا کا تعین ہی محال ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے تشدد کا ایک انتہائی گھناؤنا اور غیر انسانی پہلو یہ بھی ہے کہ تشدد پر آمادہ ہجوم میں سے کچھ افراد اس پورے تشدد کی مکمل ویڈیو بناتے ہیں اور بعد میں انھیں سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پورے بھارت یا آن لائن سماجی میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں نشر کرتے ہیں۔[2] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [3] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[4] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [5] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[6] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [7] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[8] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [9] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[10] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [11] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[12] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [13] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[14] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [15] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[16] کچھ معاملوں میں ایسے ویڈیوز راست سماجی میڈیا پر بھی نشر کیے جا چکے ہیں، جس سے جرم کے مرتکبین میں شرم کے فقدان، ان کا قانون سے بے خوف ہونا اور کسی پشیمانی کی عدم موجودگی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے ایک طرح کے جرم کے مکرر انجام ہونے کے قوی امکانات کا بھی واضح امکان دکھائی پڑتا ہے۔ [17] اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سماجی میڈیا پر کئی فرضی ویڈیو گشت کر رہے ہیں، جو ملک میں نفرت بھی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور تشدد اختیار کرنے پر آمادہ بھی کر رہے ہیں۔[18]