ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ مصنف From Wikipedia, the free encyclopedia
کیفی اعظمی (ولادت 14 جنوری، 1919ء، وفات 10 مئی، 2002ء) کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کی پیدائش اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں ہوئی۔ وہ محض گیارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر چکے تھے۔ ان کی پہلی نظم اس طرح تھی:
کیفی اعظمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 14 جنوری 1919ء اعظم گڑھ |
وفات | 10 مئی 2002ء (83 سال)[1] ممبئی |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
زوجہ | شوکت کیفی |
اولاد | شبانہ اعظمی ، بابا اعظمی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | شاعر ، نغمہ نگار ، غنائی شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
ساہتیہ اکادمی اعزاز اردو (برائے:Awara Sajde ) (1975)[2] پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم فلم فیئر اعزاز | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
IMDB پر صفحات[3] | |
درستی - ترمیم |
کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔
کیفی اعظمی صاحب کا اترپردیش کے ضلع اور شہربہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔کیفی کے والد سید فتح حسین رضوی نانپارہ کے قریب نواب قزلباش کے تعلقہ نواب گنج میں تحصیل دار تھے اور شہر بہرائچکے محلہ قاضی پورہ میں رہتے تھے،اور اس طرح کیفی کے بچپن کے کئی سال بہرائچ کی سرزمین پر گذرے ہیں۔ اور بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ آناجانا بنا رہا جس میں وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات کرتے تھے،اور شفیع بہرائچی کی دکان پر ادبی محفل کا حصہ بنتے تھے۔ جہاں بہرائچ کے مشہور شاعر وصفی بہرائچی ،جمال بابا،شوق بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی،عبرت بہرائچی ،اظہار وارثی وغیرہ شرکت کرتے تھے۔[4]
1943ء میں کیفی بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے تھے۔ یہاں انھیں قریب دس سال کی جدوجہد کے بعد انھیں بالی وڈ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
1950ء کے دہے میں ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے تھے۔ شرکت کے لیے 80 روپیے طے ہوئے۔ تاہم اسی زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی رقم 40 روپیے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئی۔ کیفی نے منشا سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال، حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔ ان کے مجموعات کلام اس طرح ہیں:
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
دھرم کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون
گھر نہ جلتا تو انھیں رات میں پہچانتا کون
گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھرمیں آئے
شاکاہاری ہیں مرے دوست تمھارے خنجر
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے سارے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے[6]
ایم فل
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.