ممبئی میں دہشت گردانہ کارروائیاں، 26 نومبر 2008ء
From Wikipedia, the free encyclopedia
نومبر، 2008ء ممبئی، بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں، دس کارروائیوں کا تسلسل ہے جن کا آغاز 26 نومبر، 2008ء کو بھارت کے معاشی دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر ممبئی میں ہوا اور 29 نومبر تک بھی ان دہشت گردوں کا مکمل طور پر قلع قمع نہیں کیا جاسکا۔[5] خبروں کے مطابق ان واقعات میں کم از کم ایک سو پچیانوے (195) افراد[3] بشمول بائیس غیر ملکیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے اور تین سو ستائیس (327) افراد زخمی ہوئے۔[4][6] دہشت گردی کی آٹھ کارروائیاں ممبئی کے جنوبی حصے میں ہوئیں، جن میں ہجوم کے لحاظ سے مصروف ترین چھتر پتی شیواجی ٹرمینس نامی ریلوے اسٹیشن، دو فائیو اسٹار ہوٹل جن میں مشہورِ زمانہ اوبرائے ٹرائیڈینٹ اور ممبئی گیٹ وے کے نزدیک واقع تاج محل پیلیس اینڈ ٹاورز شامل ہیں، لیوپولڈ کیفے جو سیاحت کے لیے ایک معروف ریسٹورنٹ ہے، کاما اسپتال، یہودیوں کے مرکز نریمان ہاؤس، میٹرو ایڈلبس مووی تھیٹر اور پولیس ہیڈ کوارٹرز، جہاں پولیس کے تین کلیدی منصب دار بشمول انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ، کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا جبکہ دہشت گردی کا نواں واقعہ ولے پارلے میں ہوائی اڈے کے قریب ایک ٹیکسی میں بم دھماکا تھا۔ تاہم اب تک یہ تعین نہیں کیا جاسکا ہے یہ دھماکا جنوبی ممبئی میں جاری کارروائیوں کا تسلسل ہے یا کوئی الگ نوعیت کا واقعہ۔[7] ان کارروائیوں میں تقریباًً پچاس سے ساٹھ دہشت گرد ملوث ہیں۔[متنازع – تبادلۂ خیال] [8]
یہ مضمون فرسودہ ہے. |
26 نومبر 2008ء ممبئی میں دہشت گردی کی کارروائیاں | |
---|---|
متاثرہ مقامات کی نشان دہی | |
مقام | ممبئی، بھارت |
تاریخ | 26 November 2008, 9:20 pm[1] — 29 نومبر، 2008ء [ہنوز جاری] (انڈیا کا معیاری وقت، متناسق عالمی وقت +5:30) |
حملے کی قسم | بمباری، فائرنگ، یرغمال]][2] |
ہلاکتیں | 195[3] |
زخمی | 327+[4] |
مشتبہ مرتکبین | پاکستان میں دہشت گردوں کی |
ایک غیر معروف تنظیم بنام دکن مجاہدین نے خبر رساں اداروں کو بذریعہ برقی خط مطلع کیا ہے کہ یہ کارروائی دکن مجاہدین کی اور وہ اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔[9] برطانوی، امریکی اور یہودی افراد کو خاص طور پر نشانہ بنانے، مسلح افراد کی تعداد، استعمال کردہ اسلحہ کی اقسام اور حملوں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ حملہ آوروں کا تعلق بھارت سے نہیں ہے بلکہ یہ کسی بیرونی اسلامی مجاہدین کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔[10][11][12] بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممبئی میں ان دہشت گردی کی کارروائیوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے کیونکہ اس طرح کی کارروائی بغیر کسی بیرونی امداد کے ممکن نہیں۔[10] 28 نومبر کی صبح ممبئی پولیس نے دعوٰی کیا ہے کہ تاج محل پر حملہ کرنے والے تین دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا اور انھوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ اُن کا تعلق پاکستانی جہادی تنظیم لشکرطیبہ سے ہے۔[13] جس سے ممکنہ طور پر پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات پر بہت برا اثربڑے گا۔ اس سے قبل بھارتی مجاہدین نے ستمبر، 2008ء میں ممبئی میں بم دھماکوں کی دھمکی دی تھی۔[14][15] کچھ خبر رساں اداروں کے مطابق ایک دہشت گرد نے اوبرائے ہوٹل میں خبر رساں اداروں کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ بھارت کی جیلوں میں مقید تمام مجاہدین کو رہا کر دیا جائے، اسی شرط پر یرغمالیوں کو رہا کیا جائیگا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اوبرائے ہوٹل میں سات دہشت گرد یرغمالیوں کو سنبھال رہے ہیں۔ [16][17] دیگر خبروں کے مطابق یہ مطالبہ ایک یرغمالی کے ذریعے اسرائیل کے سفارتی دفتر میں فون کے ذریعے پیش کیا۔[18] تاہم ماہرین کی حتمی رائے کے مطابق ان حملوں میں القائدہ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔[19] دودنوں کی مسلسل فائرنگ اور دھماکوں کے بعد 28 نومبر کی صبح ممبئی میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے حملے بند ہو گئے ہیں۔[20][21]
آگ بجھائی جاچکی ہے اور سپاہی یرغمالیوں کو محفوظ پناہ گاہوں کی جانب لے جاتے ہوئے اور مرنے والوں کی لاشوں کو ہٹاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔[20] نریمان ہاؤس اور اوبرائے ٹرائیڈینٹ ہوٹل میں بھارتی کمانڈوز نے دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے۔[20][22]۔ یہودیوں کے مرکز میں پانچ یرغمالی کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے۔[4] بعد میں آنے والی خبروں سے پتہ چلا کہ اب بھی تاج محل میں دو یا تین دہشت گرد موجود ہیں، اس کے ساتھ دھماکے اور فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔[22] تاج محل کی زمینی منزل پر فائرنگ کا تبادلہ اور پہلی بالائی منزل سے دھوئیں کا اخراج جاری ہے۔[22] ان واقعات میں تاج محل ہوٹل کو بڑی طرح نقصان پہنچا ہے، اس کا گنبد اور دیگر ثقافتی حصے تباہ ہو چکے ہیں۔[22] قومی محافظ سلامتی کی کارروائیوں کے نتیجے میں تاج میں موجود دونوں دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔[22]
یہاں یہ خبر قابل ذکر ہے کہ واقعات کے پہلے چار گھنٹے کے دوران انسداد دہشت گردی کے سربراہ ہمنات کارکرے ہلاک ہو گئے، جو اس سے پہلے بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل سرکانت پرساد کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہے تھے۔[23][24]