ضلع باجوڑ
From Wikipedia, the free encyclopedia
Remove ads
صوبہ خیبرپختونخوا کا ایک اہم ضلع، سابقہ ایجنسی
Remove ads
تاریخی حیثت
باجوڑ صوبہ خیبرپختونخوا کا شمال میں واقع ایک تاریخی ضلع ہے، زمانہ ئے قدیم میں جب پشتون سرزمین پر بودھ مت کا دور تھا موجودہ پختونخوا بامیان تک، گندھارا سلطنت ایران، کے تحت ایک مستقل صوبہ تھا تو باجوڑ بھی، گندھارا، کے جغرافیہ کاحصہ تھا یہاں کی زمین میں وقتاً فوقتاً ہزاروں سالہ قدیم دور کے بہت سے نوادرات دریافت ہوئے ہیں مگر بدقسمتی سے وہ سب چوری چھپے نکالے گئے ہیں کیونکہ وزیرستان سے باجوڑ تک کے علاقے میں آج تک ایک بھی، میوزیم، موجود نہیں ہے جس میں اس علاقے کے تاریخی آثار کو محفوظ کیا جاسکے۔[4] اب بھی باجوڑ میں بیشمار آثار قدیمہ کے ٹیلے موجود ہیں ماموند، برنگ، سلارزو، چارمنگ اور، ناواگئ، میں جگہ جگہ، سٹوپوں، کے ممکنہ نشانات بھی ملے ہیں جنکو اگر سائنسی وسائل کی مدد سے کھولا جائے تو گذرے ہوئے دور کے بہت سے راز ہمیں مل سکتے ہیں۔ باجوڑ کے مشرق میں ضلع دیر مغرب میں افغانستان کا صوبہ کنڑ جنوب میں ضلع مومند جبکہ شمال میں بھی صوبہ کنڑ واقع ہے۔
باجوڑ کے افغانستان کیساتھ کچھ، پچاس، کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے افغانستان کا صوبہ کنڑ باجوڑ سے متصل ہے ڈیورنڈ لائن کے آر پار ترکانڑی قبیلہ کے دو شاخوں، ماموند اور سلارزی، کے لوگ آباد ہیں ان کے درمیان ہزاروں سال سے 26 ایسے راستے تھے جن پر ان کے درمیان آمد و رفت کے ساتھ وسطی ایشیا تک تجارت ہوتی تھی اب باڑ لگانے سے یہ امدورفت مستقل طور پر بند ہو چکی ہے۔
ان 26 راستوں میں سب سے بڑا تاریخی راستہ، ناواپاس، کا ہے جن سے 327 ق م میں سکندر یونانی کے لشکروں کے ساتھ، چنگیز خان 1222ع، محمود غزنوی 1020ع اور، ظہیر الدین بابر 1519 ع، کے لشکر داخل ہوئے تھے ناوا پاس کا راستہ انگریز مؤرخ، ولیم ونسٹھ، کے بقول ھندوستان کی جانب سوات سے ہوتے ہوئے قدیم ترین راستہ تھا جس کے ذریعے فاتحین باجوڑ سوات اور پھر، ھنڈ، کے مقام پر اباسین کو پار کرکے ھند کی طرف، مارگلہ، کے پہاڑیوں کے بیچ وبیچ بڑھتے تھے 326 ق م میں یونانی مؤرخین، آریان اور بطلیموس، سکندر یونانی کے لشکر کے حملے کے وقت، موجودہ، ناواگئ، کے مقام پر ایک تاریخی تمدنی شہر، اریگائن، کا ذکر کرتے ہیں یہ تمدن بقول اولف کیرو اور، گیٹ آف انڈیا، کے مطابق باجوڑ ناواگئ سے کنڑ تک پھیلا ہوا تھا جس میں موجودہ یوسفزئی قبیلہ آباد تھا جس کا ذکر یونانی مؤرخین، اسپاسی، کے نام سے کرتے ہیں بقول بھادر شاہ ظفر کاکا خیل کے یہ یوسفزئی قبیلہ ہی ہے۔
درہ خیبر کی قدامت تاریخی طور پر اتنی نہیں ہے جتنی قدامت باجوڑ کے راستے کی ہے بقولِ مؤرخین جب 1581ء میں جلال الدین اکبر کے دور میں ٹیکسلا سے آگے موجودہ اٹک پل پر اباسین کے اوپر یہ راستہ دریافت ہوا تو باجوڑ کی بجائے فاتحین اس راستے کو مستقل طور پر استعمال کرنے لگے۔
1519 عیسوی کا زمانہ جب بابر بادشاہ باجوڑ کی طرف اپنی نظریں مرکوز کرتا ہے۔ باجوڑ پر ملک حیدر علی کی حُکمرانی ہے۔ مُغل لشکر باجوڑ کے مرکزی قلعے جو پشت سے چند کلومیٹر آگے، گبر چینہ، کے آس پاس تھا کو حِصار میں لیتا ہے۔ 6 جنوری 1519ء کو بابر بادشاہ لشکر کو حملہ کرنے کا حُکم دیتا ہے۔ جنگِ باجوڑ کے بارے میں بابر اپنی یاداشت، تزک بابری، لکھتے ہے (چونکہ باجوڑی اسلام کے باغی ہیں اس لیے کسی رعایت کے مستحق نہیں) ,تین ہزار باجوڑی کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے اور اُنکے کھوپڑیوں کا مینار بنایا جاتا ہے فتح نامے کے طور پر باجوڑ کے پشتونوں کے مشران کے سروں کو بدخشاں اور کابل بیجھ دیا جاتا ہے۔ باجوڑ کو فتح کرنے کے بعد یہ علاقہ سردار خواجہ کلاں کے تصرف میں دیا جاتا ہے اور بابر خود سوات ملاکنڈ کی راہ لیتا ہے۔ اب اُنکی نگاہ یوسفزئی قبیلے کو زیر کرنے پر لگتی ہے۔ یوسفزئی بابر کی ڈر سے مورا پہاڑی تھانہ ملاکنڈ میں پناہ لیتے ہیں۔ جبکہ بابر اپنی مُغل لشکر کے ساتھ خزانہ خیموں کے مقام پر خیمہ زن. پھر بابر یوسفزئی قبائلی ملکان ملک شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ کو اپنی دُلہن بنا کر مفاہمت کی راہ اپنا لیتا ہے۔ 19 جنوری 1519ء کو بی بی مبارکہ اور بابر کی شادی ہوتی ہے۔ اس شادی میں دُلہن کے وکیل کے فرائض طاؤس خانی ادا کرتا ہے ظہیر الدین بابر بابر بی بی مبارکہ کے لیے خار سے متصل، ناوی ڈنڈ، کے تاریخی مقام پر محل اور سوئمنگ پول، بناتا ہے یہ تاریخی حوض کچھ دس سال پہلے سلفیت کے مسلک کے لوگوں نے اپنی مسلکی مدرسہ میں تبدیل کیا گیا ہے اور اس تاریخی مقام کو ختم کیا گیا ہے۔ بابر پھر واپسی کی راہ لے کر کابل جاتا ہے۔ تزکِ بابری میں بی بی مبارکہ کی اولاد کا کوئی ذکر نہیں. بی بی مبارکہ افغانی آغاچہ کے نام سے شہرت پاتی ہے۔ تاریخِ سرحد کے مطابق بی بی مبارکہ زندگی کے آخری ایام باجوڑ میں گُزارتی ہے ایک قول کے مطابق بی بی مبارکہ بعد میں ہندوستان جاتی ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق وہ، باجوڑ کے، باد سمور، میں مدفون ہے۔
باجوڑ موجودہ وقت میں دو سب ڈویژنز، ناواگئی اور، خار، سب ڈویژن پر مشتمل ہے صدر مقام خار ہے جبکہ پورا ضلع سات تحصیلوں، خار، ناواگئ، اتمانخیل، سلارزو، ماموند، برنگ اور چمرکنڈ پر مشتمل ہے۔ خار، ناواگئ اور، عنایت کلے باجوڑ کے بڑے تجارتی مراکز ہیں جنمیں بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں ہوتی ہیں ماضی قریب میں ٹمبر افیون اور اسلحہ کا بڑے پیمانے پر کاروبار ہوتا تھا مگر 1990ء کے بعد یہ کاروبار تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔
باجوڑ زمانہ ئے قدیم سے ھندوستان کی طرف ریشم کے تجارتی راستے کے بیچ پڑا تھا ہر طرف سے ہر رنگ و نسل کے لوگ تجارتی قافلوں کی ٹولیوں کی شکل میں آکر باجوڑ میں پڑاؤ ڈالتے رہے[5]
Remove ads
قبائل
باجوڑ میں دو بڑے قبائل آباد ہیں جنمیں ایک، ترکانڑی قبیلہ، جبکہ دوسرا، اتمانخیل قبیلہ، آباد ہے اتمانخیل قبیلہ کرلانڑی گروپ کیساتھ تعلق رکھتا ہے جبکہ اتمانخیل کا لہجہ بھی آج تک کرلانڑی گروپ کیطرح ہیں بولنے کا انداز اور، حروف علت، میں سے، الف، کو عموماً، ی، سے بدلتے ہیں جبکہ ترکانڑی قبیلہ، سڑبنی، گروپ سے تعلق رکھتا ہے باجوڑ کی ابادی کا 70 فیصد حصہ ترکانڑی قبیلہ پر مشتمل ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن سمیت بڑے بڑے بازاروں اور کاشت کاری کے لیے موزوں اہمیت کی حامل سرزمین ان کے زیرِ استعمال ہیں ساتھ ہی ہزاروں سالہ ھند کی طرف قدیم تاریخی راستہ بھی اس قبیلے کے سرزمین پر گذرا تھا جو آج بھی شارع عام ہے باجوڑ کی بڑی سڑک جو ماضی میں قافلوں کی امدورفت کے لیے استعمال ہوتا تھا خار سے ہوتا ہوا ناواگئ سے بذریعہ مومند پشاور کی طرف بڑا شارع عام ہے لوئی سم انبار کی سائیڈ پر بھی سڑک پشاور گیا ہے اسی طرح برنگ اور ارنگ کے راستے ضلع ملاکنڈ کی طرف سڑکیں گئی ہے بڑی شاہراہ خار سے منڈا ضلع دیر کی طرف گیاہے۔
ترکانڑی قبیلہ کی بڑی شاخ ماموند قبیلہ موجودہ وقت میں باجوڑ کے تین تحصیلوں میں آباد ہے جنمیں لوئی ماموند، واڑہ ماموند اور سلارزئی، شامل ہیں سلارزی بھی ترکانڑی قبیلہ کے ذیلی شاخ کا بڑا قبیلہ ہے جو سلارزو ناواگئ چارمنگ اور چمرکنڈ تک پھیلا ہوا ہے سلارزو میں لرمدک برمدک لر سدین اور بر سدین کے ناموں پر آباد ہے ماموند اور سالارزئی قبیلہ شجروی تاریخ سے آپس میں چچا زاد بھائی ہیں۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق بشمول سلارزو کے اس قوم کی آبادی پانچ لاکھ اٹھاون ہزار افراد پر مشتمل ہے۔
قبیلہ ماموند قوم ترکانڑی کی ایک ذیلی شاخ ہے ترکانڑی کے جد امجد کا نام ترک بتایا جاتا ہے جو قبیلہ یوسفزئی کے چچا زاد ہونے کی وجہ سے، ترہ زوی، یعنی چچازاد بھائی کے نام سے یاد ہے جبکہ بعض تاریخوں میں ترکانڑی کے بجایے ترکلانی لکھا گیا ہے جو محاورتاً ترکلانی غلط ہے
اسی طرح پختونوں کے ایک اور تاریخی قبیلے غلجی کا تلفظ غلط طور پر خلجی لکھا جاتا ہے جس کے اصلاح کے لیے خوش حال بابا کا یہ شعر بطور دلیل موجود ہے
بیا سلطان جلال الدین پہ سریر کیناست
چی داصل نہ غلجئ د ولایت وو
اس لیے وہ دوست جن کا تعلق قوم غلجی سے ہو وہ اس تاریخی قبیلہ کے نام کو اپنے نام کیساتھ خلجی کی بجائے غلجئ لکھا کریں لفظ خلجی درست نہیں بلکہ فارسی اور ایرانی کلچر کے اثرات کے غلبے کی نتیجے میں بگڑا ہے۔
اسی طرح تاریخی طور پر یوسفزئی الگ اور ترکانڑی الگ قبائیل نہیں ہے کئی ادوار سے انتھائی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں ترکانڑی اور یوسفزئی ایک دوسرے کے ساتھ قریبی قبیلوی قرابت بھی رکھتے ہیں باجوڑ ترکانڑی قبیلہ کا ہزاروں سالہ مسکن ہیں وقتاً فوقتاً حالات کی وجہ سے ماضی بعید میں یہ یہاں سے نکلے ہیں آخری بار سولویں صدی کے پہلے دہائی میں 1508ء کو یہ طویل مہاجرت کے بعد باجوڑ کو واپس ہوئے تھے 1480ء کے دور میں جب مرزا الغ بیگ نے یوسفزئی قوم کے سات سو مشران کے جرگے کو دھوکے سے کابل طلب کیا اور پھر خیانت کرکے بڑی بے رحمی سے ان مشران کو قتل کیا تو اس کے بعد بڑی بے سروسامانی کی حالت میں یوسفزئی پشاور کی طرف آئے جہاں پہلے موجود ,، دلہ زاک،، قبیلے نے ان کو دوابہ کا علاقہ دیدیا۔
مگر بعد میں جب یوسفزئی قبیلہ اور دلہ زاک کے درمیان تعلقات بگڑ گئے اور نوبت جنگ تک گئی کیونکہ عام پختونوں میں سب سے زیادہ یوسفزئی اور ترکانڑی ہمیشہ جنگجو رہے ہیں۔
باجوڑ میں سولویں صدی سے قبل، خلیل، دلہ زاک، یوسفزئی اور ترکانڑی قبیلہ آباد رہا ہے۔
ترکانڑیوں کے حوالے سے تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ ترکانڑی قبیلہ کی ایک پوری ریاست لغمان اور اس کے اطراف میں1508تک موجود تھی جبکہ اس وقت کے ترکانڑی قبیلہ کا مشر ملک سرخابی ابن شمو باجوڑ کی لڑائی میں دلہ زاک کے مقابل یوسفزئی قبیلہ کا ساتھ دینے کے لیے اپنے لشکر سمیت آیا تھا اور میدان جنگ میں لڑائی کا پانسا ترکانڑیوں کے حق میں پلٹایا تھا اور اس وقت کے دلہ زاک کے مشر ملک ھیبو کو ایک ترکانڑی پائندہ خان نے میدان میں مارا تھا اس کے بعد ملک سرخابی باجوڑ کا علاقہ یوسفزیوں کو دیکر واپس لغمان چلاگیا مگر جب بعد میں لغمان میں ان کے ریاست کے تعلقات کابل میں مغل سلطنت کے حکمرانوں کیساتھ خراب ہو گئے تو ترکانڑی قبیلہ نے وہاں سے کوچ کیا اور قوم یوسفزی نے ترکانڑیوں کے احسانات کے بدلے باجوڑ میں شیخ ملی کی تقسیم میں ترکانڑیوں کو دیدیا جبکہ اتمانخیل قوم جو گومل اور ٹانک میں آباد تھے انھو نے بھی یوسفزوں کا ساتھ دیا تھا تو شیخ ملی نے اتمانخیل کو ارنگ برنگ اور انبار کا علاقہ دیدیا شیخ ملی کی یہ تقسیم 1530ء کے دور میں ہوئی تھی جبکہ بابر نے باجوڑ پرحملہ 1519ء میں کیا تھا جبکہ اس وقت یوسفزی یا ترکانڑی باجوڑ میں نہیں تھے شیخ ملی کی یہ تقسیم اراضی کا رواج باجوڑ میں بیسویں صدی کے نصف تک رائج تھا۔
جب سکندر یونانی 327 ق م میں باجوڑ ناواگئ کے علاقے میں وارد ہوا تو اس وقت ناواگئ کے علاقے میں، اریگائن، کے نام سے ایک بڑا تمدن آباد تھا۔
اسپاسی قبیلہ کے لوگوں کی سکندر کے ساتھ بڑی لڑائی ہوئی سکندر یونانی کو مساگا سے پہلے یہاں پہلی بار جنگ میں زخمی کیا گیا جب کہ، اسپاسی، قبیلہ کے کچھ دس ہزار افراد قید ہوئے تھے پختون مؤرخین بھادر شاہ ظفر کاکا خیل کے مطابق یہ، اسپاسی، قبیلہ موجودہ پشتونوں کا قبیلہ، یوسفزئی، ہے جن کے ساتھ لازماً ان کے عزیز ترکانڑی بھی ہوں گے جس طرح اب ایک دوسرے کے ساتھ قریب رھ رہے ہیں۔
ماموند قبیلہ بقول تواریخ حافظ رحمت خانی اور خان روشن خان کے سات ذیلی شاخوں پر مشتمل ہے( 1بڑوزئی)(2ککی زی یا کاکازی) (3خلوزئی)(4اوریازئی5سالارزئی)(6برم کازئی)(7، بدل زئی)
جبکہ ماموند قبیلہ کے جد امجد کا نام معلوم شجروی تاریخ کے حوالے سے محمود تھا محمود موسی کا بیٹا تھا موسیٰ کے سات بیٹوں سے مختلف ذیلی قبائل وجود میں آئے تھے جس میں وقت گزرنے کیساتھ ترخیم ہوتارہا اور محمود سے ماموند بن گیا ماموند کا جد امجد کب گذرا ہے اس حوالے سے کوئی مستند تاریخ معلوم نہیں۔
ککی زئی قبیلہ پنجاب کے گجرات گرداس پوراور مختلف علاقوں میں یہاں سے جاکے آباد ہوا ہے یہ لوئی ماموند کے ذیلی شاخیں ہیں ککئ زئی کے الگ قبیلے کا تصور تاریخی طور پر غلط ہے جبکہ 1881میں جنگجو یانہ فطرت ہونے کی وجہ سے متحدہ پنجاب کے انگریز سرکار نے اس قبیلے کوباغی قرار دیا تھا ککی زی قبیلہ نے ملک کو بڑے بڑے نام جن کا تعلق سول سروس اور فوج سے ہے دئے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے چند برس قبل جائنٹ چیف أف سٹاف جنرل زبیر محمود حیات کا تعلق بھی اسی ککی زئی قبیلے سے ہے جبکہ عاصمہ جہانگیر، شعیب ملک، گورنر جنرل محمد علی، کا تعلق بھی اس قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔
ترکانڑی اور اتمانخیل کیساتھ، سادات، مومند، صافی، مغل، وردگ، گجر، کے قبائل کے لوگ بھی باجوڑ میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
باجوڑ کی سرزمین یہاں پر آباد قبائل میں پہلی بار تقسیم شیخ ملی کے دور میں 1530ء کے لگ بھگ ہوئی تھی پھر 1570ء میں مورزادولی اور تیسری تقسیم چورک بابا نے سترویں صدی کے پہلے دہائی میں کی تھی باجوڑ کی سرزمین خان خوانین کی تاریخی طور پر ملکیت نہیں ہے بلکہ وہ بہت بعد میں زور زبردستی لوگوں کی زمینوں پر قابض ہوئے ہیں جب خانزم کا دور آیا اور لوگوں کو جنگوں کے لیے زمینوں کے بدلے زبردستی بھرتی کیا جانے لگا خوانین کے جد امجد، برام بابا، کو موضع چارمنگ کوٹکی میں ایک قبیلہ کے برابر زمین ملی تھی برام بابا کا قبر بھی کوٹکی میں واقع ہے۔
Remove ads
جغرافیہ
موجودہ باجوڑ کا جغرافیہ 1290 کلومیٹر پر مشتمل ہے 70 فیصد زمین بارانی ہے جبکہ تیس فیصد پہاڑی چشموں ندیوں اور کودھے گئے کنوؤں سے سیراب ہوتی ہیں جبکہ
2018ء کے مردم شُماری کے مطابق باجوڑ کی ابادی 1093000 افراد پر مشتمل ہے جبکہ باجوڑ کے سیاسی رہنما حالیہ مردم شُماری کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور ضلع کی ابادی ان کے مطابق بیس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
باجوڑ کے سلارزو، ماموند اور اتمان خیل کے علاقے میں کئی ندیاں بہتی ہیں جن کا پانی، جار خوڑ، میں اکٹھا ہو کر دریائے پنجکوڑہ، میں خزانہ سے آگے گرتا ہے جبکہ برنگ بوساق کے مقام پر، دریائے سوات اور، دریائے پنجکوڑہ، اکھٹا ہوکر باجوڑ میں کچھ بیس میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پھر اگے چارسدہ ابازو کی طرف نکلتا ہے۔
پہاڑ
افغانستان کے سائیڈ پر بڑا پہاڑی سلسلہ، ھندوکش، واقع ہے جبکہ باجوڑ کے پہاڑی سلسلے کو ہندوکش کے ذیلی شاخ، کوہ ھندوراج، سے یاد کیا جاتا ہے اس پہاڑی سلسلے میں بڑی بڑی سربفلک پہاڑی چوٹیاں بھی ہیں جنمیں، لیٹئ سر، گاخی کنڈؤ، ہاشم سر، مٹاک سر، مانڑے باباجی سر اور، ملکہ ٹاپ، شامل ہیں باجوڑ کے پہاڑی چوٹیوں کی عمومی بلندی سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ تک ہیں اسی طرح باجوڑ کے درمیان میں خار اور برنگ سے متصل تاریخی پہاڑ، کیمور، بھی ہیں جن کی اونچائی 8500 تک ہیں اس پہاڑ میں یونانیوں سے لے کر زرتشت اور بودھ مت تک تاریخی آثار رہے ہیں اور یہ پہاڑ ان تھذیبوں میں ایک مقدس چوٹی تھی جس کے جنگلات میں شکار بھی ممنوع تھا باجوڑ میں ہر جگہ پر ہر ایک پہاڑ اور اس کی چوٹی کو ایک مخصوص نام سے یاد کیا جاتا ہے جو اس پورے علاقے کی پہچان ہوتی ہے۔
باجوڑ کے پہاڑوں پر بڑے پیمانے پر قدرتی جنگلات بھی ہیں مگر کچھ عرصہ سے ان جنگلات کو بڑی بیدردی سے تباہ کیا گیا ہے ان جنگلوں کو آباد کرنا اب حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ان پہاڑوں میں دیگر بہت سے نباتاتی وجنگلی پودوں کیساتھ دو کروڑ کے قریب جنگلی زیتون کے درخت اب بھی موجود ہیں جن میں، قلمی زیتون، کی پیوندکاری وقت کی ضرورت ہے۔
Remove ads
زراعت
زراعت کو اگر دیکھا جائے تو باجوڑ کے 70فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ باجوڑ میں کل قابل کاشت زمین 129036ہیکٹرز زرعی زمین ہے جنمیں 77062 ہیکثرز زمیں کاشت کی جاتی ہیں جبکہ باقی بنجر پڑی ہے 77062 ہیکٹر زمیں میں صرف 15970ہیکٹرز زمیں کے لیے پانی دستیاب ہیں جو اکثر قدرتی چشموں یا لوگوں کیطرف سے خود کھودی گئی کنووں سے سیراب ہوتی ہیں جبکہ باقی زمیں کی پیداوار کا دارومدار بارش پر ہوتا ہے باجوڑ کی زمین زرعی پیداوار کے لیے آب و ہوا کے لحاظ سے انتہائی مناسب ہیں مگر بدقسمتی سے یہ سونا اگلنی والی زمین وقت کے ساتھ اپنی پیدوار کے لحاظ سے بانجھ ہورہی ہیں اگر باجوڑ کے زمیں سے وقت و ضرورت کے لحاظ سے پیداوار لینا ہیں تو درج ذیل امور پر حکومت کو توجہ دینا ہوگی 1.کسانوں کو جدید سائنسی زراعت سے روشناس کرانا ہوگا 2 پیداوار بڑھانے کے لیے جدید سائنسی اصولوں پر بنائے گئے بیجوں کو کاشت کرنا ہوگا 3 آلات زراعت کے لیے جدید مشینگری کا استعمال کرنا ہوگا پانی کے کمی کو ختم کرکے حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر بجلی پر انحصار کی بجائے سولر سسٹم پر توجہ دینا ہوگی 4 باجوڑ میں زراعت کے لیے قدرتی طور پر پہاڑوں میں ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جن میں انتہائی کم لاگت سے بارانی ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں۔
چاول گندم مکئی کی فصلیں روایتی فصلیں ہیں جبکہ پشت کے چاول سارے باجوڑ میں شہرت رکھتے ہیں۔
Remove ads
ایجنسی
باجوڑ کو دسمبر 1973 میں مستقل ایجنسی کا درجہ دیا گیا تھا اس سے پہلے وہ ملاکنڈ ایجنسی کا انتظامی حصہ تھا باجوڑ میں پاکستان کی عملداری سات اکتوبر 1961ء میں آئی تھی جب برگیڈیئر تور گل کمانڈنٹ کرنل عبد الکریم اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ فضل الرحمان کی سربراہی میں مسلح دستے باجوڑ میں پرامن طور پر داخل ہوئے تھے۔
اس سے پہلے 1960ء میں جب پختونستان کی تحریک زوروں پر تھی افغانستان کی سائیڈ سے ایک بہت بڑا لشکر باجوڑ میں داخل ہوا تھا لشکر کی کوشش تھی کہ وہ خار پہنچ جائے اور اس وقت کے خار خان عبد السبحان خان کو بزور بازو سبکدوش کریں اور باجوڑ کو افغانستان کا حصہ بناکر اپنا ہم خیال بندے کو خانی کے منصب پر بٹھائے اس سے کچھ عرصہ قبل تک خار خان افغانستان کا وفادار تھا مگر پاکستان بننے کے بعد اس نے اپنی وفاداری پاکستان کے ساتھ جوڑ دی۔
لشکر کیساتھ اتفاقی طور پر ماموند اور ناواگئ کے، مٹاک، پہاڑ پر ستمبر کے مہینے میںجنگ چھڑ گئی جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ماموند کے لشکر کی قیادت، ملک خانزادہ، کرریے تھے ماموند کے علاقے میں 125 عام لوگ قتل ہوئے تھے جبکہ لشکر بھی مکمل طور پر تباہ ہوا تھا، مٹاک، کے مقام پر بھی تئیس ستمبر کو بہت بڑی جنگ ہوئی تھی جس کی قیادت دلاور خان آف چارمنگ نے کی تھی۔
Remove ads
خانزم اور باجوڑ
باجوڑ پر سولویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک، خان ازم، کا راج بھی رہا ہے یہ خانی ریاست، براہیم، نام کے ایک بڑے سے شروع ہوئی تھی جس کے بعد اس کے اولاد میں ایک شخص، موزا خان، نے 1586 اس کو مغل زین خان کوکہ کے باجوڑ پر حملے کے بعد تسلسل بخشا ان کی اولاد تین بڑے خاندانوں میں بٹی تھی جنمیں، ناواگئ میں، منصور خان، کی اولاد کی خانی تھی خار پر، الہ یار خان، کی اولاد اور پشت پر، مدد خان، کی اولاد جبکہ اسمار پر بھی مدد خان کے خاندان کی حکمرانی تھی یہ چار چھوٹے چھوٹے خوانین تھے یہ خوانین صرف، میر عالم اور، صفدر خان، کے وقت میں اکھٹے ہوئے تھے صفدر خان نے 1892ء میں غازی عمرا خان کو شکست بھی دی تھی۔
یہ خانیاں ایک علاقائی مشرے کے طور پر کام کرتی تھی کوئی منظم ترقی یافتہ سٹیٹ کے درجے میں نہیں تھی اکثر وبیشتر لوگوں پر مظالم ڈھاتے تھے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف عوامی بغاوتیں ہوتی تھی یہ خوانین اپنی ذاتی جاگیروں کی توسیع کے لیے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تھے عام لوگ اس میں تباہ ہوتے تھے اب یہ خوانین ختم ہو چکے ہیں اپنے علاقوں میں علاقائی مشران کی حدتک ہیں باجوڑ کے لوگ اب ان سے آزاد خود مختار ہیں اور اپنی زمینوں کے مالک ہیں ان خوانین کا کوئی ایسا اجتماعی قومی کارنامہ یا سوات کی والی کیطرح کوئی مثالی ترقی کا نمونہ نہیں ہے جو یاد رکھا جاسکے بلکہ ایک روایتی جاگیرداری کے تصور پر کھڑے فرسودہ قبائیلی سماج کی سوسائٹی کے نمائندے تھے۔
Remove ads
قدیم باجوڑ
باجوڑ زمانہ ئے قدیم میں ایک بڑی ریاست رہی ہے اور اس کے حدود بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ولیم بارٹر کے بقول قدیم قدیم باجوڑ کا جغرافیہ 5000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔
قاضی عبد الحلیم اثر افغان کے بقول قدیم باجوڑ کے حدود مشرق میں جندول برول، شمال میں افغان صوبہ کنڑ کے، دانگام، شڑتن، مغرب میں کنڑ کا، سورے تیگہ، جبکہ جنوب میں موجودہ ضلع مومند کے، نحقی کمالی کے پہاڑ اور انبار تک پھیلے ہوئے تھے وقتاً فوقتاً یہ حدود سمٹتے رہے آخری بار مشرق کی سائیڈ پر منڈا سے جندول تک کا علاقہ 1898ء میں ناواگئ کے خان صفدر خان نے نواب آف دیر محمد شریف خان پر بیس ہزار روپے کے عوض بیچھ دیا تھا جبکہ مامد گٹ سے آگے کا علاقہ صفدر خان کے بیٹے، مندالی خان، نے 1912ء میں مومند کے لشکر سے جنگ میں ہار دیا تھا۔
Remove ads
وجہ تسمیہ
وجوہ اسماء علمی طور پر ضروری نہیں ہے کہ وہ لازماً موجود ہو لیکن بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جن کی نام کی تسمیہ کے حوالے سے تاریخی و علمی روایات موجود ہوتی ہیں۔
انہی علاقوں میں سے ایک باجوڑ کا علاقہ بھی ہے قاضی عبد الحلیم اثر کے بقول باجوڑ کا نام کچھ چھ ہزار سال پرانا ہے جب مصر کے علاقے، الباجور، سے ایک قوم یہاں آکر آباد ہوئی مصر قاہرہ کے قریب، باجور، نام کا۔ علاقہ اب بھی موجود ہے اسی طرح سکندر یونانی کے دور میں باجوڑ کے علاقے، ناواگئ، میں اریگائن کے نام سے ایک بہت بڑی تمدن آباد تھی جن کے حدود بقول یونانی مؤرخین کے، کنڑ، تک پھیلے ہوئے تھے 1150ء سے سولویں صدی تک باجوڑ سے لے کر سوات تک ایک سلطنت پھیلی ہوئی تھی جس کو تاریخ میں، مملکت گبر، کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سولویں ہی صدی کے دوسرے عشرے میں جب ظہیر الدین بابر 1519ء میں کابل سے ہوتا ہوا باجوڑ پہنچتا ہے تو وہ اپنی کتاب، تزک بابری، میں باجوڑ کو، بجور، لکھتا ہے ایک ہی دن میں بابر نے امیر حیدر علی کیساتھ لڑائی میں تین ہزار باجوڑیوں کو تہ تیغ کیا تھا۔
عبد العلی غورغوشتی اپنی کتاب، لویہ افغانیہ، میں لکھتے ہیں کہ لفظ باجوڑ پشتو کا لفظ ہے قلندر مومند پشتو لغت دریاب اور بھادر شاہ ظفر کاکا خیل پشتو لغت، ظفراللغات، میں لکھتے ہیں کہ باجوڑ کا لفظ، باج، سے نکلا ہے، باج، پشتو کا لفظ ہے جس کا معنی ہے، غلے کا ایک خاص ٹیکس یا مقدار، ور، باج، کیساتھ لاحقہ ہے اس حساب سے باجوڑ کے لفظ کا معنی ہے وہ خطہ زمین جو اچھی طرح غلہ اگاتی ہو یعنی پیداواری زمین اس حوالے سے پشتو کی ایک کہاوت بھی ہے کہ، باجوڑ نہ خورے نو بد پے ہم مہ وایہ، یعنی باجوڑ میں اگر رہتے بھی نہ ہو تو اس کی مذمت نہ کرو ! میری رائے میں یہ رائے علمی اور تاریخی ماخذ کے طور پر زیادہ موزون ہیں کیونکہ باجوڑ سے مغل دور میں دس ہزار روپے کا ٹیکس بطورِ باج کے لیا جاتا تھا باجوڑ سوات تک مغل سلطنت میں 1858 تک ایک صوبہ تھا اسی طرح سکندر یونانی نے جب 326 ق م میں، اریگائن، پر حملہ کیا لڑائی کے بعد لوگوں سے بطورِ تاوان جنگ کے دو لاکھ بیل اور گائیں بطورِ باج کے لے گئے تھے۔
باجوڑ کے نام کے حوالے سے ایک اور تشریح بھی کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ لفظ اپنی اصل کے اعتبار سے سنسکرت ہے، باج، اصل میں علم لغت کے اعتبار سے، بھاگ، تھا سنسکرت میں بھاگ اچھی قسمت کو کہتے ہیں پھر ہندی میں یہ لفظ باج بنا اور باج سے باجوڑ بنا یعنی اچھی قسمت دار لوگوں کا وطن۔
Remove ads
باجوڑ کا لہجہ
باجوڑ کے لوگ سو فیصد پشتون قبائل ہیں باجوڑ کا ترکانڑی قبیلہ پشتونوں کے نسلی گروپ میں، سڑبنی، کیساتھ ہے جبکہ سڑبنی میں یہ خخی خیل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جنمیں ان کے ساتھ یوسفزئی، گگیانی، بھی شامل ہے جبکہ مومند کا تعلق غوریا خیل سے ہیں جنمیں ان کے ساتھ، یوسفزئی، چمکنی، داودزئی، وغیرہ بھی ہیں بقول حمید ماشوخیل !
چی داستا د نامے بوئی اخلی حمیدہ !
ولے بہ نہ وی خوش دماغہ غوری خخی۔
پشتونوں کے دو بڑے لغتی لہجوں، قندہاری اور، پشاوری، میں باجوڑ کے لوگ پشاوری لھجے میں پشتو بولتے ہیں پشاوری لہجے کو یوسفزئی لہجہ بھی کہا جاتا ہے مگر
ڈاکٹر نسیم خان اپنے ایم فیل کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ اس لہجے کو یوسفزئی کی بجائے پشاوری لہجے کے نام سے پکارنا زیادہ موزون ہے۔
پشتو کے ماہرین لسانیات پشتو کے لہجوں کو دو لہجوں کیساتھ چار تک بتاتے ہیں جبکہ بقول صدیق اللہ رشتین کے پشتو کی مقامی بولیاں اور لہجوی تفردات ستر تک پہنچتی ہیں۔
کسی زبان کے لہجوں کا تنوع اس زبان کی قدامت کی دلیل ہوتی ہے جبکہ لہجوی تنوع ایک ایسے بڑے جغرافیہ میں آباد قوم کی سکونت قدامت کی دلیل ہے جو ایک دوسرے سے بہت دور دور تک آباد ہوتے ہیں اور ان کے درمیان قربت اور میل جول کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں یہی بعد اور عدم اختلاط کسی بھی زبان میں لہجوی تنوع کا سبب بنتی ہیں جن کے پیچھے، سیاسی، معاشی، ثقافتی اور، اقتصادی، عوامل بھی کارفرما ہوتی ہیں۔
صدیق اللہ رشتین باجوڑ کے لھجے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ باجوڑ کے لوگ حرف، غ، کی بجائے، گ اور، پشتو کے حرف، څ، استعمال زیادہ کرتے ہیں جیسے، غوخہ، کو، گوخہ، غاخ، کو، گاخ، غوختنہ، کو، گوختنہ، جبکہ تختیدل، کو، څښتيدل، کہتے ہیں۔
باجوڑ کے لوگ محاورے میں تکیہ کلام کے طور پر لفظ، جو، چی کوم دے، غوچے، غولے، وغیرہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح باجوڑ کے لوگ انتہائی سلیس نرم اور صاف پشتو بولتے ہیں یہاں کے باسی پشتو کے تمام حروف کو بڑی فصاحت سے ادا کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے پشتون علاقوں میں پشتو کے مخصوص حروف، ښ، څ، ځ، پ، ڼ، وغیرہ کو لوگ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے مگر باجوڑ کے لوگ پشتو کے مخصوص حروف کے ساتھ ساتھ ان تمام حروف کو بڑے کرخت انداز میں اپنے روزمرہ کے محاورات میں استمعال کرتے ہیں۔
باجوڑ کی وجہ شہرت ماضی قریب میں، شیر عالم میمونہ، کی لوک داستان ہیں جو باجوڑ کے تاریخی علاقے، ناواگئ، میں 1920 کو وقوع پزیر ہوا تھا میں نے باجوڑ کے تاریخ پر لکھے گئے پہلی کتاب، باجوڑ د تاریخ پہ رنڑا کے، میں اس داستان سمیت باجوڑ کی تاریخ کے حوالے سے ہر رخ پر بڑی تفصیل سے بات کی ہے۔
باجوڑ کی تاریخ میں چند بڑے لوگ بھی گذرے ہیں، جنمیں، غازی پیغمبر، غازی عمرا خان، بابڑے مولا صیب، مولانا عبد المجید افغانی، مولانا فضل محمود مخفی، مولانا ضیاء اللہ سیفی غونڈی بابا، ملک محمد عمر خان اتمانخیل، ملک محمد آمین ماموند، میر عالم خان، صفدر خان، غازی محمد گل جان، وغیرہ۔
موجودہ وقت میں باجوڑ کے چند بڑے قومی و سیاسی مشران، شیخ جھانزادہ، سید اخونزادہ چٹان، گل افضل خان، شہاب الدین خان، مولانا گل داد خان، مولانا عبد الرشید، ملک آیاز، ملک سلطان زیب، لالی شاہ پختون یار، پروفیسر گل بادشاہ، وغیرہ شامل ہیں،
Remove ads
سیاحتی مقامات
Wikiwand - on
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Remove ads