سندھ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صوبہ From Wikipedia, the free encyclopedia

سندھ
Remove ads

سندھ سندھی: سنڌ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبان سندھی اور اردو ہے۔ صوبائی دار الحکومت کراچی ہے۔ سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔ مردم شماری پاکستان 2023ء کے مطابق صوبہ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ چھپن لاکھ چھیانوے ہزار 55,696,147 افراد پر مشتمل ہے۔

اجمالی معلومات سندھ سندھ, ملک ...
Remove ads

وجہ تسمیہ

لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔

اجمالی معلومات صوبائی جانور, صوبائی پرندہ ...

آب و ہوا

ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (بالخصوص مئی۔ جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (بالخصوص دسمبر۔ جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاً سالانہ سات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاں برف باری ہوتی ہے۔

Remove ads

تاریخ

Thumb

زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنھیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔ آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائے سرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔ آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے ہندوستان کے مذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر[1]

برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلبہ نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔

حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے جس کے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔

ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنھیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکا میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔

سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہو سکا کہ وہ ہندوستانی فنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کے لیے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟

زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔

گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔

کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کے لیے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔

Remove ads

زبانیں

مردم شماری پاکستان 2023ء کے مطابق صوبہ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ چھپن لاکھ چھیانوے ہزار 55,696,147 افراد پر مشتمل ہے۔ دیہی علاقوں میں 23,605,495 افراد سندھی بولتے ہیں، جبکہ 286,071 افراد اردو بولتے ہیں۔ شہری علاقوں میں 12,123,674 افراد اردو اور 9,856,804 افرد سندھی بولتے ہیں۔


Thumb

صوبہ سندھ کی زبانیں (مردم شماری پاکستان 2023ء کے مطابق)

  سندھی (60.14%)
  اردو (22.3%)
  پشتو (5.31%)
  پنجابی (4.07%)
  بلوچی (2.17%)
  سرائیکی (1.64%)
  ہندکو (1.49%)
  دیگر (2.88%)

مردم شماری پاکستان 2023ء کے مطابق صوبہ سندھ میں سندھی بولنے والوں کی تعداد 33,462,299 ہے جبکہ اردو بولنے والوں کی تعداد 12,409,745 ہے، اس کے علاوہ پشتو 2,955,893، پنجابی بولنے والے افراد 2,265,471 ہیں، بلوچی 1,208,147، سرائیکی 913,418، ہندکو 830,581، براہوی 265,769، میواتی 57,059، کشمیری 53,249، بلتی 27,193، شینا 22,273، کوہستانی 14,885، کلاشہ 777 اور دیگر زبانیں بولنے والے افراد 1,151,650 ہیں۔

Remove ads

سندھ کی انتظامی تقسیم

سندھ کے اضلاع

موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 30 اضلاع میں منقسم ہے۔

Remove ads

سندھ میں مذاہب

دیگر معلومات سندھ میں مذاہب ...

آبادیات اور معاشرہ

دیگر معلومات آبادیات سندھ, موشر ...
دیگر معلومات تاریخی آبادی, مردم شماری ...
Remove ads

سندھ کے بڑے شہر

سندھ کا دار الحکومت کراچی ہے۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر بڑے شہر درج ذیل ہیں۔

دیگر معلومات سندھ کے بڑے شہر, درجہ ...
Remove ads

قومی شناختی کارڈ کوڈ

نگارخانہ

مزید دیکھیے

حوالہ جات

بیرونی روابط

Loading related searches...

Wikiwand - on

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Remove ads