شریف حسن دیوبندی
ہندوستانی مسلمان عالم دین (1920–1977ء) From Wikipedia, the free encyclopedia
Remove ads
شریف حسن دیوبندی (9 اگست 1920ء – 2 جون 1977ء) ایک ہندوستانی مسلمان عالم دین اور محدث تھے۔ انھوں نے 1972 سے 1977ء تک دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے اور تقریباً دس سال جامعۃ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل میں استاذ حدیث اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
Remove ads
ابتدائی و تعلیمی زندگی
شریف حسن دیوبندی 9 اگست 1920ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔[1] انھوں نے دیوبند میں حفظ قرآن کیا، پھر تین سال مدرسہ اسلامیہ بیہٹ میں انور شاہ کشمیری کے تلمیذ عبد الرحیم مظفر نگری کے ماتحت رہ کر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔[2] اس کے بعد انھوں نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1358ھ مطابق 1939ء میں سند فضیلت حاصل کی۔ [3][4]
ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ حدیث میں حسین احمد مدنی، شبیر احمد عثمانی، اصغر حسین دیوبندی اور محمد ابراہیم بلیاوی شامل تھے۔ [5]
Remove ads
عملی زندگی
تعلیم سے فراغت کے بعد 1361ھ مطابق 1941ء میں انھیں کو مدرسہ امداد العلوم، خانقاہ امدادیہ، تھانہ بھون میں صدر مدرس مقرر کیا گیا، جہاں انھوں نے اشرف علی تھانوی سے علم حدیث اور علم فقہ میں استفادہ بھی کیا۔ 1364ھ 1945ء میں وہ مدرسہ اشاعت العلوم، بریلی میں صدر مدرس ہوئے اور نو سال تک وہاں استاذ حدیث اور ایک مفتی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[6][7][5]
اس کے بعد انھوں نے ربیع الاول 1373ھ مطابق 1953ء سے شوال 1383ھ مطابق 1964ء کے درمیان تقریباً دس سال جامعۃ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل میں استاذ حدیث اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور جامع الترمدی اور صحیح البخاری جیسی کتابیں ان کے زیر درس رہیں۔[8][9][10][11][12]
1383ھ مطابق 1963ء میں دار العلوم دیوبند میں بہ حیثیت استاد ان کا تقرر ہوا اور صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، سنن ابو داؤد جیسی کتابیں کے اسباق ان سے متعلق رہے۔[13][14][15] 1392ھ مطابق 1972ء میں سید فخر الدین احمد کے بعد شیخ الحدیث کا منصب ان کے سپرد کیا گیا، اس حیثیت سے انھوں نے تا حیات یعنی 1397ھ مطابق 1977ء تک صحیح البخاری (جلد اول) کا درس دیا۔[16][17][18][19]
انھوں نے امام ترمذی کی الشمائل المحمدیۃ (شمائل ترمذی) کی ایک شرح لکھی تھی، جو تاہنوز غیر مطبوعہ ہے۔[20]
Remove ads
وفات
شریف حسن دیوبندی کا انتقال 15 جمادی الاخری 1397ھ مطابق 2 جون 1977ء کو دیوبند میں ہوا۔ [21][22][23] اگلے دن ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور قبرستان قاسمی میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔ [17]

پسماندگان میں ان کے چار فرزند رئیس احمد، نیر عثمانی، منیر عثمانی اور قاسم عثمانی ہیں۔ [24]
حوالہ جات
Wikiwand - on
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Remove ads