ابو ذر غفاری
صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم / From Wikipedia, the free encyclopedia
جُنْدُب بن جُنَادَة رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات 31ھ) ابوذر کنیت، شیخ الاسلام لقب۔ قبیلہ بنو غفار سے تھے۔آپ اپنی کنیت ابوذرؓ غِفَارِی کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ نہ مکہ سے تھے نہ یثرب سے تعلق تھا بلکہ ایک ایسی جگہ سے تھے جو مسافروں کے لیے نہایت ہی خطر ناک جگہ تھی - غِفَار-رہزنی اور تجارتی قافلوں کو لوٹنا بنو غفار کا پیشہ تھا۔جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ خبر بنو غفار کے اس نوجوان تک بھی پہنچی جس کی رنگت میں سرمئی غالب تھی- بلند ترین قد, دبلے اور پھرتیلے جسم کے مالک تھے۔کردار میں سادہ مزاجی اقوال میں بے باکی ان کی شخصیت کو ایک خاص پہچان دیتی تھی۔آپ کبھی بت پرستی کے قریب نہیں گئے۔ابوذرؓ نے اپنے بھائی انیس کو یہ ذمہ دیا کہ مکہ کے حالات معلوم کرے اور اس شخص کے بھی جس نے نبوت کا اعلان کیا اور اک اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ان کے بھائی نے واپس آکر مختصر حالات بیان کیے کیونکہ مشرکین مکہ مکرمہ کی وجہ سے تفصیل معلوم کرنا مشکل کام تھا۔ابو زر غفاری نے کہا اتنا میرے لیے کافی نہیں خود مختصر سامان سفر باندھا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے جاتے وقت بھائی نے آگاہ کیا کہ مکہ کی قوم اس نبی کے خلاف ہیں اور وہ ان کے دشمن ہیں اور انھیں بھی تکلیف دیتے ہیں جو ان سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں۔جب یہ مکہ پہنچے تو اسی الجھن میں رہے کی کس سے ملے اور کس سے نہیں اسی الجھن میں وقت گذرا اور سامان سفر ختم ہو گیا۔اسی حالت میں اک جگہ سے گذر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک معتبر شخصیت پر پڑی جو مسکینوں کو کھانا کھلا رہے تھے دیکھنے پر بہت ہی بھلے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ جیسے ابوذرؓ نے غور کیا ویسے ہی انھوں نے بھی بھی ابوذرؓ پر غور کیا۔وہ ابوبکرؓ تھے۔ انھیں ابوبکرؓ اپنے گھر لے گئے اور خوب مہمان نوازی کی تین دن گذر گئے لیکن ابوذرؓ غفاری نے ان کے سامنے کچھ ذکر نہیں کیا کیونکہ ابوذرؓ غفاری اب بھی الجھن میں ہی تھے۔آخر ابوبکرؓ نے ان سے پوچھ لیا نہ تم تاجر نظر آتے ہو نہ تمھارے آمد کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔تمھارا مقصد کیا ہے اور تمھاری منزل کیا ہے۔یہ سن کر ابوذرؓ نے ہمت باندھی اور کہا کہ وعدہ کرو کہ جو میں سوال کروں اس کا صحیح جواب دو گے اور مجھے تکلیف نہیں پہنچاؤ گے اور یہ راز ہی رکھو گے۔ابوبکرؓ صدیق نے وعدہ کیا- ابوذرؓ نے ان سے مکہ آنے کا ارادہ بیان کیا اور یہ اللہ کی منشا تھی کہ آپ ابوبکر صدیقؓ کے مہمان تھے اور ابوبکرؓ بلا تاخیر انھیں آپ ﷺ کے پاس لے کر گئے۔آپ ﷺ نے ان کے سامنے جب قرآن پڑھا تو بے ساختہ ابوذرؓ نے درمیان میں ہی کلمہ پڑھ کر گواہی دی جس سے آپ ﷺ بے حد خوش ہوئے۔ان کی بے باکی کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ ابوذرؓ نے مشرکین مکہ کے درمیان با آواز بلند مسلمان ہونے کا اعلان کیا جس سے مشتعل ہوکر مشرکین نے آپ کو بہت زدوکوب کیا لیکن آپ ﷺ کے چاچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابھی ایمان نہ لائے تھے درمیان میں حائل ہو گئے اور کہا یامعاشرۃ القریش! یہ شخص بنو غِفَار سے تعلق رکھتا ہے جہاں سے ہمارے تجارتی قافلوں کا گذر ہوتا ہے یہ سنتے ہی سب خوف سے پیچھے ہٹ گئے اس طرح ابوذرؓ مشرکین کے چنگل سے چھوٹے آپ اسلام لانے والے پانچویں یا چھٹے شخص تھے اور بیرون مکہ سے آکر اسلام لانے والے پہلے شخص تھے آپ ﷺ سے پہلی ملاقات میں السلام علیکہ یا رسول اللہ یہ الفاظ سب سے پہلے ابوذرؓ نے استعمال کیے آپ ﷺ کے کہنے پر آپ نے اپنے علاقے میں جاکر دعوت دی آپ کے خاندان سمیت اکثر لوگ ایمان لے آے- بقیہ تب ایمان لائے جب آپ ﷺ مدینہ میں تھے آپ ﷺ نے بنو غفار کے لیے دعا فرمائی غِفٰارُُ غَفَرَالَلہُ لَہُمْ اے اللہ بنو غفار کو بخش دے دنیا اور مال سے بے رغبتی: ایک دفع ایک صحابی ابوذرؓ کے کمرے میں آے تو حیران رہ گئے سارا حجرہ خالی پڑا ہے تو پوچھا آپ کی ضروریات کا سامان کہاں ہے تو آپ نے فرمایا وہ سب سامان میں نے اپنے محل میں محفوظ رکھا ہے! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کو جانے لگے چونکہ یہ غزوہ بڑی سخت گرمی میں ہونا تھا، لمبا سفر تھا اور جنگلوں کو طے کرنا تھا اور مقابلہ بھی بہت بڑی فوج سے تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرما دیا تھا تاکہ دشمن کے مقابلہ کے لیے پوری تیاری کر لیں یہ اصحاب کے لیے آزمائش تھی۔یہ سفر اتنا دشوار تھا کہ اونٹ بھی تھک کر نکمے ہو جاتے۔اس سفر میں بار ہا اندراج ہوا اگر کوئی پیچھے رہ جاتا تو اس کی اطلاع آپﷺ کو دی جاتی۔ایک مرحلہ ایسا آیا کہ ابوذرؓ پیچھے رہ گئے اس کی اطلاع آپﷺ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا جانے دو اگر ان کی شرکت سودمند ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے تم کو ملا دے گا اور اس کے خلاف ہے تو اللہ نے تم کو ان سے مطمئن کر دیا ہوا یہ تھا کہ ابوذرؓ کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا آپ نے بلا تاخیر اپنا سامان پشت پر ڈالا اور نبی صلی الله عليه وسلم کے پیچھے چل کھڑے ہوئے آپ ﷺ کسی منزل پر فروکش تھے ایک صحابی کی نظر دور سے آتے ہوئے ایک شخص پر پڑی انھوں نے آپ ﷺ کو اطلاع دی آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر ہوں گے شناخت کرنے پر پتہ چلا ابوذرؓ ہی ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ ابوذر پر رحم کرے وہ تنہا پیدل آ رہے ہے تنہائی میں ان کو موت آے گی اور تنہا قبر سے اٹھاے جائے گے زید بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہے کہ میں ربذہ سے گذر رہا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ دکھائی دیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آ گئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ سے میرا اختلاف (قرآن کی آیت) ”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے“ کے متعلق ہو گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ (جو ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے) کے یہاں میری شکایت لکھی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ (وہاں جب پہنچا) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انھوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کر لو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں (ربذہ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔اسی ویران مقام پر آپ نے اپنی بیوی اور خادم کے ساتھ وقت گزارا آخری وقت میں دونوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد غسل دے کر اور کفنا کر جنازہ شارع عام پر رکھ دینا اور جو کوئی یہاں سے گذرے ان سے کہنا یہ ابوذرؓ صحابیِ رسول اللہ کا جنازہ ہے آپ تدفین میں ہماری مدد کریں یہ کہ کر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس کہ بعد آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا اور آپ کے جنازے کو تیار کر کے راستہ کے کنارے پر رکھ دیا گیا اتفاقاً کچھ ہی دیر بعد وہاں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہل عراق کی ایک جماعت کو لے کر عمرہ کے ارادہ سے مکہ کے لیے اسی راستے سے گذر رہے تھے انھوں نے اچانک جنازہ دیکھا اسی وقت ابوذرؓ کا خادم قافلے کے قریب آیا اور کہا یہ ابوذرؓ صحابی رسول اللہ کا جنازہ ہے آپ تدفین میں ہماری مدد کرے یہ سننا تھا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ زار وقطار رونے لگے پھر عبد اللہ بن مسعود نے واقعہ تبوک کا ذکر کیا رسول اللہ کی بات ابوذرؓ کے متعلق آج بالکل سچ ہو گئی پھر سب سوا ریوں سے اترے اور تدفین عمل میں آئی پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعے کا ذکر ہر ایک سے کر تے تھے ۔[3][4][5] [6] [7]
ابو ذر غفاری | |
---|---|
(عربی میں: أَبُو ذَرّ ٱلْغِفَارِيّ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: جُنْدَب بن جُنادَة بن سُفيان ٱلْغِفَارِيّ ٱلْكِنَانِيّ) |
پیدائش | حجاز |
وفات | سنہ 651ء [1] ربذہ |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | انس بن مالک |
پیشہ | واعظ ، محدث ، تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | فتح مکہ ، غزوہ حنین ، اسلامی فتح مصر ، عرب بازنطینی جنگیں |
درستی - ترمیم |