دولتِ اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) ایک شدت پسند عسکری تنظیم ہے جسے عالمی سطح پر دہشت گرد گروہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 1999ء میں ابو مصعب الزرقاوی نے رکھی تھی اور یہ ابتدائی طور پر "جماعت التوحید و الجہاد" کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بعد ازاں 2004ء میں اس نے القاعدہ کے ساتھ الحاق کیا اور "القاعدہ فی العراق" کے نام سے موسوم ہوئی۔[13] تاہم، 2013ء میں اس نے شام اور عراق میں خلافت کا دعویٰ کیا اور "داعش" کے نام سے شہرت پائی۔ 2014ء میں ابوبکر البغدادی نے خود کو خلیفہ قرار دیتے ہوئے اسلامی ریاست کا اعلان کیا۔[14]

اجمالی معلومات داعش, متحرک ...
داعش
الدولة الإسلامية في العراق والشام
ad-Dawlah al-Islāmiyah fī 'l-ʿIrāq wa-sh-Shām

the عراق جنگ (2003–2011), the عراقی بغاوت، the شامی خانہ جنگی، the عراقی خانہ جنگی، the دوسری لیبیائی خانہ جنگی، the بوکو حرام بغاوت، the شمال مغرب پاکستان میں جنگ، the افغانستان میں جنگ، the یمنی خانہ جنگی، اور دیگر تنازعات میں شریک
جھنڈا[1]
مہر[2]
متحرک
1999–حال
  • 1999: جماعت التوحید والجہاد کے نام سے قیام
  • اکتوبر 2004: القاعدہ میں شمولیت
  • 13 اکتوبر 2006: عراق میں خلافت کا اعلان
  • 8 اپریل 2013: شام میں علاقے کا دعویٰ
  • 3 فروری 2014: القاعدہ سے علیحدگی[3]
  • 29 جون 2014: خلافت کا اعلان
  • 13 نومبر 2014: لیبیا، مصر، یمن، اور دیگر علاقوں میں علاقے کا دعویٰ
  • 12 مارچ 2015: نائیجیریا میں علاقائی دعویٰ[4]
نظریات
رہنماہان
صدر دفتر
کاروائیوں کے علاقے
داعش کا کنٹرول شدہ علاقہ
قوت
فوجی قوت
  • اندر شام اور عراق: 35,000–100,000[12]
  • باہر شام اور عراق: 32,600–57,900
بند کریں

اسلامی فقہ کے مطابق، جہاد ریاست کی جانب سے، ضرورت اور دفاعی مقاصد کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ فقہ کے اصولوں کے تحت جہاد کو منظم کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ ریاست کے پاس رہی ہے، جس کا مقصد امن، انصاف اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے تحت ہوتا تھا۔ جب تک فقہ کا نظام مضبوط رہا، پرائیوٹ عسکری تنظیموں کے قیام کی ضرورت نہیں پڑی۔[15] تاہم، داعش جیسی تنظیمیں ان اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے تحت جہاد کا نام استعمال کرتی ہیں اور دراصل دہشت گردی اور قتل و غارت کا ارتکاب کرتی ہیں۔[16]

داعش نے 2014ء میں عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور موصل اور رقہ جیسے اہم شہروں کو اپنے زیر اثر کر لیا۔ تاہم، عالمی افواج کی مداخلت اور مزاحمت کے بعد 2017ء میں موصل اور 2019ء میں الباغوز میں اس تنظیم کو شکست ہوئی۔[17] داعش کا نظریہ بنیاد پرست سلفی جہادیت پر مبنی ہے، جو اسلامی قوانین کا سخت نفاذ اور خلافت کے قیام پر زور دیتا ہے، لیکن اس کا طریقہ کار تشدد، قتل و غارت اور دہشت گردی پر مبنی ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔[18][19]

داعش احادیث مبارکہ میں

داعش کا جھنڈا کالے رنگ کا ہے اور اس کے اوپر ’الدولۃ السلامیۃ‘ لکھا ہوا ہے۔ نعیم بن حماد کی حدیث کی کتاب ’کتاب الفتن‘ 12 سو سال پہلے مرتب ہوئی۔ اس کتاب میں ان فتنوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی نشاندھی مسلمانوں نے نبی ﷺ نے فرمائی تھی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث ہے کہ

’لوگو! ایک وقت آئے گا، جب کالے جھنڈوں والے ظاہر ہوں گے، کالے جھنڈوں والی ایک جماعت ظاہر ہوگی، جب یہ جماعت ظاہر ہو تو اس کی ابتداء فتنہ ہوگا، اس کا درمیان گمراہی ہوگی اور اس کا اختتام کفر پر ہوگا۔‘[20]

علی المرتضیٰؓ سے مروی ہے کہ

’اس کالے جھنڈوں والی جماعت کے دل لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوں گے، وہ ’اصحاب الدولۃ‘ یعنی ریاست کے دعویدار ہوں گے، انہیں کسی معاہدے کی پاسداری نہیں ہوگی، وہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے مگر خود اسلام والوں میں سے نہیں ہوں گے، ان کے نام کنیت کے ساتھ ہوں گے (یعنی اپنے اصل نام ظاہر نہیں کریں گے)، ان کی نسبت ان کے قصبوں اور گاؤں کی طرف ہوگی، ان کے بال عورتوں کی طرح لمبے ہوں گے، اونٹ کی کوہان کی طرح کپڑے سے اپنے سر اور منہ کو باندھ لیں گے۔‘[21]

ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے کہ

’یہ امت میں خرابی پیدا کرنے کی فکر ہے یہ مصر سے شروع ہوگی، پھر عراق کو اپنے گھیرے میں لے گی اور اس کے بعد شام تک پھیل جائے گی۔‘[22]

ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ

’یہ کالے جھنڈوں والی جماعت شام کو گھیرے میں لے لے گی، اور پورے عراق کا احاطہ کر لے گی۔‘ [23]

مجموعی علامات

مذکورہ بالا احادیث میں دہشت گردوں کی درج ذیل علامات سامنے آئیں:

  1. کالے جھنڈے ہوں گے
  2. لوہے کی طرح سخت دل ہوں گے
  3. ریاست کے دعویدار ہوں گے
  4. ان کا ظہور عراق کے صحرائی علاقوں سے ہوگا
  5. پھر شام کو گھیرے میں لیں گے
  6. اپنے سر، چہرے اور بالوں کو اونٹ کی کوہان کی شکل دیں گے
  7. ان کا نعرہ ہوگا ’مارو مارو‘
  8. انسان خون کو حلال سمجھیں گے
  9. لوٹ مار کو حلال گردانیں گے
  10. عزتوں کی پامالی کو حلال سمجھیں گے
  11. سارا عراق ان کی وجہ سے جنگ کی لپیٹ میں چلا جائے گا
  12. اور شام کے اندر خانہ جنگی ہو جائے گی
  13. سیاسی عدم استحکام ہوگا
  14. یمن سمیت پورے جزیرۂ عرب میں فتنہ پھیل جائے گا
  15. شامی لوگ ہجرت کر کے دوسرے ملکوں کو منتقل ہو جائیں گے

داعش کا آغاز

داعش کا سنہ 1999ء میں جماعت التوحید و الجہاد کے طور پر ظہور ہوا، جو القاعدہ کی حامی تھی اور 2003ء-2011ء عراقی کشیدگی میں حصہ لیا۔ جون 2014ء میں اس گروہ نے دنیا بھر میں خود کو خلافت کہا[24][25] اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانا شروع کر دیا۔[26] خلافت کے طور پر اس نے دنیا میں مسلمانوں پر مذہبی، سیاسی اور فوجی اقتدار کا دعوی کیا۔[27] خود خلافت کہلوانے پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑے مسلم گروہوں نے اس کی ریاست کی تنقید اور مذمت کی۔[28]

ابتدائی شہرت

داعش نے ابتدائی 2014ء میں عالمی شہرت اس وقت حاصل کی جب اس نے عراقی حکومتی افواج کو انبار مہم میں کلیدی شہروں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا[29] اس کے بعد موصل پر قبضہ کیا[30] اور سنجار قتل عام ہوا۔[31]

اقوام عالم کا رد عمل

اس گروہ کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ داعش شہریوں اور فوجیوں بہ شمول صحافیوں اور امدادی کارکنان کے سر قلم کرنے اور دیگر قسم کی سزائیں دینے والی وڈیو[32] جاری کرنے اور ثقافتی ورثہ کی جگہوں کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔[33] اقوام متحدہ کے نزدیک داعش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ شمالی عراق میں تاریخی سطح پر داعش دوسرے مذاہب کے افراد کو بڑی تعداد میں قتل بھی کر چکا ہے۔[34]

دہشت گردانہ کارروائیاں

شام میں اس گروپ نے حکومتی افواج اور حکومت مخالف جتھوں دونوں پر زمینی حملے کیے اور دسمبر 2015ء تک اس نے مغربی عراق اور مشرقی شام میں ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا جس میں اندازہً 2.8 سے 8 ملین افراد شامل تھے،[35][36] جہاں انھوں نے شریعت کی نام نہاد تاویل کر کے اسے تھوپنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ داعش 18 ممالک میں سرگرم ہے، جن میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں اور مالی، مصر، صومالیہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور فلپائن میں اس کی شاخیں ہیں۔[37][38][39][40] 2015ء میں داعش کا سالانہ بجٹ 1 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا اور 30،000 جنگجوؤں سے زیادہ کی فوج تھی۔[41]

جولائی 2017ء میں گروہ نے اس کے سب سے بڑے شہر سے کنٹرول کھو دیا اور عراقی فوج نے فتح حاصل کر لی۔[42] اس بڑی شکست کے بعد داعش آہستہ آہستہ زیادہ تر علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور نومبر 2017ء تک اس کے پاس کچھ خاص باقی نہ رہا۔[43] امریکی فوجی عہدے داروں اور ساتھی فوجی تجزیوں کے مطابق دسمبر 2017ء تک گروہ دو فیصد علاقوں میں باقی رہ گیا۔[44] 10 دسمبر 2017ء میں عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ عراقی افواج نے ملک سے دولت اسلامیہ کے آخری ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔[45] 23 مارچ 2019ء کو داعش اپنے آخری علاقے باغوز فوقانی کے نزدیک جنگ میں ہار گیا اور اس علاقے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔[46]

حوالہ جات

بیرونی روابط

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.