استنبول
ترکی کا سب سے بڑا شہر / From Wikipedia, the free encyclopedia
استنبول (تلفظ: /ˌɪstænˈbʊl/، [8][9]ترکی زبان: İstanbul [isˈtanbuɫ] ( سنیے)) جسے ماضی میں بازنطیوم اور قسطنطنیہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ترکیہ کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ استنبول یوریشیا کا بین براعظمی شہر بھی ہے جو بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے درمیان میں آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ یہ آبنائے ایشیا کو یورپ سے جدا کرتی ہے۔ اس کا تجارتی اور تاریخی مرکز یورپی جانب ہے اور اس کی آبادی کا ایک تہائی حصہ آبنائے باسفورس کے ایشیائی کنارے کے مضافاتی علاقوں میں رہتا ہے۔[10] اس کے میٹروپولیٹن علاقہ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی مجموعی آبادی ہے[3] جس کی بنا پر استنبول کا شمار دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ عالمی طور پر یہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا شہر اور یورپ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ نیز یہ استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کا انتظامی مرکز بھی ہے۔
Istanbul İstanbul | |
---|---|
میٹروپولیٹن بلدیہ | |
اوپر سے گھڑی وار: شاخ زریں مابین قرہ کوئے و سرائے بورنو تاریخی علاقے میں; میڈن ٹاور; استنبول یاد ماضی ٹراموے بمقام شارع استقلال; لیوینٹ کاروباری ضلع مع دولماباغچہ محل; اورتاکوئے مسجد باسفورس پل کے سامنے; اور ایاصوفیہ۔ | |
ترکیہ میں مقام##یورپ میں مقام | |
متناسقات: 41°00′49″N 28°57′18″E | |
ملک | ترکیہ |
ترکی کے علاقے | مرمرہ علاقہ |
ترکی کے صوبے | استنبول |
صوبائی نشست[lower-alpha 1] | جاغال اوغلو، فاتح |
اضلاع | 39 |
حکومت | |
• ناظم شہر | اکرم امام اوغلو (ریپبلکن پیپلز پارٹی) |
• والی | علی یرلیکایا |
رقبہ[1][2][lower-alpha 2] | |
• شہری | 2,576.85 کلومیٹر2 (994.93 میل مربع) |
• میٹرو | 5,343.22 کلومیٹر2 (2,063.03 میل مربع) |
بلندی | 39 میل (128 فٹ) |
آبادی (31 دسمبر 2019)[3] | |
• میٹروپولیٹن بلدیہ | 15,519,267 |
• درجہ | ترکی کے شہر |
• شہری | 15,214,177 |
• شہری کثافت | 5,904/کلومیٹر2 (15,290/میل مربع) |
• میٹرو کثافت | 2,904/کلومیٹر2 (7,520/میل مربع) |
نام آبادی | Istanbulite (ترکی زبان: İstanbullu) |
منطقۂ وقت | ترکی میں وقت (UTC+3) |
رمزِ ڈاک | 34000 to 34990 |
ٹیلی فون کوڈ | 212 (یورپی حصہ) 216 (ایشیائی حصہ) |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | 34 |
خام ملکی پیداوار | 2018 [4][5] |
- کل | امریکی ڈالر 244.757 بلین [6] - 31.02 % ترکی کا – |
- فی کس | امریکی ڈالر 16,265 |
انسانی ترقیاتی اشاریہ (2017) | 0.812[7] – انتہائی اعلیٰ |
جغرافیائی اعلیٰ ترین ڈومین نیم | ۔ist، ۔istanbul |
ویب سائٹ | ibb www |
یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ | |
باضابطہ نام | استنبول کے تاریخی علاقے |
معیار | ثقافتی: (i)(ii)(iii)(iv) |
حوالہ | 356bis |
کندہ کاری | 1985 (9 اجلاس) |
توسیع | 2017 |
علاقہ | 765.5 ha (1,892 acre) |
سرائے بورنو کے مقام پر 600 ق م [11] میں بازنطیوم کے نام سے آباد ہونے والے شہر کے اثر و رسوخ، آبادی اور رقبہ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا اور یہ تاریخ کا سب سے اہم شہر بن گیا۔ 330ء [12] میں قسطنطنیہ کے نام سے از سر نو آباد ہونے کے بعد یہ شہر تقریباً 16 صدیوں تک متعدد سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جن میں رومی سلطنت/بازنطینی سلطنت (330ء–1204ء)، لاطینی سلطنت (1204ء–1261ء)، فالیولوجی بازنطین (1261ء–1453ء) اور سلطنت عثمانیہ (1453ء–1922ء) شامل ہیں۔ رومی سلطنت اور بازنطینی دور میں شہر نے مسیحیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد یہ مسلمانوں کا مرکز اور خلافت عثمانیہ کا دارالخلافہ بن گیا[13] اور قسطنطنیہ کے نام سے 1923ء تک یہ سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔ اس کے بعد دار الحکومت کو انقرہ منتقل کرکے اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔
اس شہر کو بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کے درمیان میں ایک اہم تزویراتی مقام بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ شہر تاریخی شاہراہ ریشم پر بھی واقع تھا۔[14] اس سے بلقان اور مشرق وسطی کے درمیان میں ریل نیٹ ورک کو کنٹرول کیا جاتا تھا اور بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کے درمیان میں واحد سمندری راستہ تھا۔ 1923ء میں ترک جنگ آزادی کے بعد انقرہ کو جمہوریہ ترکی کا نیا دار الحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی شہر کا نام قسطنطنیہ سے بدل کر استنبول رکھا گیا۔ تاہم شہر نے جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی معاملات میں اپنی اہمیت کو اب تک برقرار رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی کے بعد سے اس شہر کی آبادی دس گنا بڑھ چکی ہے کیونکہ اناطولیہ سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو چکے ہیں اور ان کی سکونت کے لیے حدود شہر میں اضافہ بھی ہوا ہے۔[15][16] بیسویں صدی کے اواخر میں یہاں پر فنون لطیفہ، موسیقی، فلم اور ثقافتی میلوں کا انعقاد شروع ہوا اور آج بھی یہ شہر ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی بہتر صورت حال نے شہر میں نقل و حمل کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر دیا ہے۔
یورپی ثقافت کا صدر مقام نامزد ہونے کے پانچ سال بعد 2015ء میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد غیر ملکی زائرین استنبول آئے۔ سیاحوں کے اس رجوع عام کی وجہ سے یہ شہر دنیا کا پانچواں مقبول ترین سیاحتی مقام بن چکا ہے۔[17] شہر کا سب سے بڑا سیاحتی مقام اس کا تاریخی مرکز ہے جو جزوی طور پر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں درج ہے۔ نیز اس کا ثقافتی اور تفریحی مرکز ضلع بےاوغلو میں واقع شہر کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں بھی ہے۔ استنبول کو عالمی شہر[18] سمجھے جانے کی وجہ سے یہاں متعدد ترک کمپنیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے مراکز بھی قائم ہیں اور ملک کی مجموعی خام ملکی پیداوار کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔[19] اس کی ترقی اور تیز رفتار توسیع کی امید میں استنبول نے گرمائی اولمپک کھیلوں کے لیے بیس سالوں میں پانچ بار بولی لگائی ہے۔[20]