دجاجہ ایکس اول
From Wikipedia, the free encyclopedia
دجاجہ ایکس اول [1] مشہور کہکشانی ایکس رے کا کہکشانی منبع ہے، جو شمالی مجمع الکواکب ہنس میں موجود ایک بلیک ہول سمجھا جاتا ہے۔[2] اس کی دریافت 1964ء میں ایک راکٹ کی اڑان کے دوران ہوئی اور یہ زمین سے نظر آنے والا سب سے طاقتور ایکس رے کا منبع ہے۔[3][4] دجاجہ ایکس اول وہ پہلا ایکس رے منبع ہے جس کو عام طور پر ایک بلیک ہول سمجھا جاتا ہے اور یہ اپنے اس گروہ میں وہ اجرام فلکی ہے جس پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ اب اس بھینچے ہوئے جسم کی کمیت کو سورج کی کمیت کا 14.8سمجھا جاتا ہے[5] اور یہ کسی بھی عام ستارے کی معلوم قسم میں سب سے چھوٹا یا بلیک ہول کے علاوہ دوسرے اجسام میں بھی سب سے چھوٹا ہے۔ اگر یہ اندازہ درست رہا تو اس کا واقعاتی افق تقریباً 44 کلومیٹرہوگا۔[6]
دجاجہ ایکس اول بلند کائنات والے ایکس رے ثنائی نظام سے تعلق رکھتے ہیں جن کا سورج سے فاصلہ 6070 نوری برس کا ہے اور ان میں ایک نیلا فوق دیو متغیر ستارہ شامل ہے جس کا نام HDE 226868 ہے[7] جو ان سے 0.2AUکے فاصلے پر یا زمین سے سورج کے فاصلے کے بیس فیصد پر موجود رہ کر چکر لگا رہا ہے۔ ستارے سے آنے والی نجمی ہوا ایکس رے کے منبع کے گرد پرت دار قرص کو مادّہ فراہم کرتے ہیں۔[8] اندرون قرص میں موجود مادّہ دسیوں لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک گرم ہو کر مشاہدہ کی جانے والی ایکس ریز کو پیدا کرتا ہے۔[9][10] دھاروں کا ایک جوڑا جو قرص کے عمود میں ترتیب پاتا ہے، وہ بین النجمی خلاء میں گرنے والے مادّہ کی توانائی کا کچھ حصّے لے کر جاتا ہے۔[11]
یہ نظام شاید اس نجمی انجمن سے تعلق رکھتا ہے جس کا نام دجاجہ OB3 ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دجاجہ ایکس اول پچاس لاکھ برس کی عمر کا ہے اور یہ ایک مورث ستارے سے بنا ہے جس کی کمیت سورج کی کمیت سے 40 گنا زیادہ تھی۔ ستارے کی کمیت کا زیادہ تر حصّہ نجمی ہواؤں کی صورت میں اڑ چکا ہے۔ اگر یہ ستارہ ایک نوتارے کی طرح پھٹا تھا تو پیدا ہونے والی قوّت نے ستارے کی باقیات کو خارج کر دیا ہوگا۔ لہٰذا ستارہ براہ راست بلیک ہول میں منہدم ہو گیا ہوگا۔[12]
دجاجہ ایکس اول 1975ء میں طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ اور کپ تھورن کے درمیان ہونے والی دوستانہ سائنسی جنگ کا موضوع بھی رہا ہے، ہاکنگ نے شرط لگائی تھی کہ یہ بلیک ہول نہیں ہے۔ اس نے اپنی اس شرط کی ہار اس وقت تسلیم کی جب حاصل ہونے والے مشاہداتی اعداد و شمار نے اس بات کا عندیہ دیا کہ درحقیقت نظام میں ایک بلیک ہول موجود ہے۔ اس مفروضے کی تصدیق براہ راست مشاہدے کی کمی کی وجہ سے نہ ہو سکی تاہم اس کو عام طور سے بالواسطہ شواہد کی بنیاد پر تسلیم کیا جاتا ہے۔[13]