![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/2/20/%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25AF_%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%2587_%25D8%25A8%25D9%2586_%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25A7%25D8%25B3.png/640px-%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25AF_%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%2587_%25D8%25A8%25D9%2586_%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25A7%25D8%25B3.png&w=640&q=50)
عبد اللہ بن عباس
صحابی رسول اور عباس بن عبد المطلب کے بیٹے / From Wikipedia, the free encyclopedia
عبد اللہ بن عباس ( 3 قبل ہجرت تا 68ھ مطابق 618ء تا 687ء) آپ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے لیے حکمت اور فقہ و تفسیر کے علوم کے حاصل ہونے کے لیے دعا مانگی۔ (حوالہ درکار)ان کا علم بہت ہی وسیع تھا اسی لیے کچھ لوگ ان کو بحر (دریا) کہتے تھے اور حبرالامۃ (امت کا بہت بڑا عالم)یہ تو آپ کا بہت ہی مشہور لقب ہے۔آپ بہت ہی خوبصورت اور گورے رنگ کے نہایت ہی حسین و جمیل شخص تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو کم عمری کے باوجود امور خلافت کے اہم ترین مشوروں میں شریک کرتے رہے ۔ لیث بن ابی سلیم کا بیان ہے کہ میں نے طاؤس محدث سے کہا کہ تم اس نو عمر شخص (عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی درس گاہ سے چمٹے ہوئے ہو اور اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی درس گاہوں میں نہیں جار ہے ہو۔[6] طاؤس محدث نے فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو وہ سب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول پر عمل کرتے تھے اس لیے مجھے ان کے علم کی وسعت پر اعتماد ہے اس لیے میں ان کی درس گاہ چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خوف خدا کا بہت زیادہ غلبہ رہتا۔ آپ اس قدر زیادہ روتے کہ آپ کے دونوں رخساروں پر آنسوؤں کی دھار بہنے کا نشان پڑ گیا تھا ۔ [7] انھوں نے اپنی کم سنی اور نو عمری کے باوجود حصولِ علم کے ہر طریقے کو اختیار کیا اور اس راہ میں انتہائی جاں فشانی اور ان تھک محنت سے کام لیا۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چشمہ صافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر سیراب ہوتے رہے۔ آپ کے وصال کے بعد وہ باقی ماندہ علما صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے بھرپور استفادہ فرمایا۔ وہ اپنے شوقِ علم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
” | جب کسی صحابی کے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں قیلولہ کے وقت دوپہر میں ان کے دروازے پر پہنچ جاتا اور اپنی چادر کو سرہانے رکھ کر ان کے گھر کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ اس وقت دوپہر کی تیز اور گرم ہوائیں بہت سا گردو غبار اڑا کر میرے اوپر ڈال دیتیں۔ حالانکہ اگر میں ان کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگتا تو مجھے اجازت مل جاتی۔ لیکن میں ایسا اس لیے کرتا تھا کہ ان کی طبیعت مجھ سے خوش ہو جائے، جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے؛ ابن عمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپ نے کیوں یہ زحمت گوارا کی، آپ نے میرے یہاں اطلاع بھجوا دی ہوتی، میں خود حاضر ہو جاتا لیکن میں جواب دیتا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ حصول علم کے لیے صاحب علم کے پاس جایا جاتا ہے۔صاحب علم خود طالب علم کے پاس نہیں جایا کرتے۔ پھر میں ان سے حدیث پوچھتا۔ [8] | “ |
مکمل
عبد اللہ بن عباس | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن عبَّاس) ![]() | |
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 619ء [1][2][3] ![]() مکہ [4] ![]() |
وفات | سنہ 687ء (67–68 سال)[1] ![]() طائف [4] ![]() |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
عارضہ | اندھا پن ![]() |
اولاد | علی بن عبد اللہ بن عباس |
والد | عباس بن عبد المطلب ![]() |
والدہ | لبابہ بنت حارث ![]() |
بہن/بھائی | فضل ابن عباس ، تمام بن عباس ، قثم بن عباس ، معبد ابن عباس ، عبد الرحمن بن العباس ، کثیر بن عباس ، ام حبيب بنت عباس ![]() |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد بن عبداللہ ![]() |
تلمیذ خاص | عطاء بن ابی رباح ، وہب بن منبہ ، طاؤس بن کیسان ، انس بن مالک ، قاسم بن محمد بن ابی بکر ، محمد بن سیرین ، مجاہد بن جبیر ، بکیر بن الاخنس السدوسی ![]() |
پیشہ | مفسر قرآن ، مورخ ، فقیہ ![]() |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [5] ![]() |
شعبۂ عمل | اسلامی الٰہیات ، تفسیر قرآن ، فقہ ![]() |
کارہائے نمایاں | تنویر المقباس ![]() |
درستی - ترمیم ![]() |
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے لیے حکمت اور فقہ وتفسیر کے علوم کے حاصل ہونے کے لیے دعا مانگی ۔ ان کا علم بہت ہی وسیع تھا اسی لیے کچھ لوگ ان کو بحر (دریا) کہتے تھے اور حبرالامۃ (امت کا بہت بڑا عالم)یہ تو آپ کا بہت ہی مشہور لقب ہے ۔ یہ بہت ہی خوبصورت اور گورے رنگ کے نہایت ہی حسین وجمیل شخص تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو کم عمری کے باوجود امور خلافت کے اہم ترین مشوروں میں شریک کرتے رہے ۔ خوف خدا کی وجہ سے آپ اس قدر زیادہ روتے کہ آپ کے دونوں رخساروں پر آنسوؤں کی دھار بہنے کا نشان پڑ گیا تھا۔ 68ھ میں بمقام طائف 71 برس کی عمر میں وصال ہوا۔ [10][11] [12]