1913ء میں جب ہندی سنیما کا آغاز ہوا اس میں پہلی ریلیز ہونے والی خاموش فلم راجا ہری چندر تھی جو قدیم ہندو داستانوں کے ایک بادشاہ کے بارے میں ’راجا ہریش چندر‘ کے بارے میں تھی۔ یہ خاموش فلم 21 اپریل1913ء کومخصوص طبقہ کے لیے ریلیز ہوئی جبکہ3 مئی 1913ء کو اسے عوام کے لیے ریلیز کر دیا گیا۔[1] ا۔ یہ دھندیراج گوند پھالکے کی تخلیق تھی۔ جنہیں دادا صاحب بھالکے بھی کہا جاتا ہے۔ 1913ء کی دوسری بالی ووڈ فلم موہنی بھاسمسور بھی دادا صاحب پھالکے نے بنائی۔ 1913ء میں دادا صاحب پھالکے نے چند اور فلمیں بھی بنائی جو عموماً ڈوکیومنٹری طرز کی تھیں ان میں ’’انکراچی ودھ‘‘ جو مٹر کے پودے کی کاشت پر بنائی گئی تھی۔ یہ فلم انھوں نے راجا ہریش چندر سے پہلے بنائی تھی اور یہی شارٹ ڈوکیومنٹٰ فلم ان کے انگلینڈ جانے کا سبب بنی۔ جہاں سے آکر انھوں نے راجا ہریش چندر فلم بنائی اور ہندی فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔[2] 1913ء میں دادا صاحب پھالکے کی دیگر مختصر فلموں میں ڈریم لینڈ آف گجیند راؤ اور پتھاچے پنجے (ہاتھوں کے نشان) شامل ہیں۔
ہندی سینما کی شروعات 1913 میں ریلیز ہونے والی خاموش فلم ’راجا ہریش چندر‘ سے مانی جاتی ہے وہیں 1931 میں ہندوستان میں گویائی سے مزین پہلی فلم ’عالم آرا‘ ہے ‘یعنی اگر فلم میں مکالمے کی بات کی جائے تو اس کا آغاز ’عالم آرا‘ سے ہی ہوتا ہے
خبریں اور نکات
دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی مکمل فیچر فلم “راجا ہریش چندر” بنائی جو 03 مئی 1913 کو سینما پر پیش کی گئی۔
راجا ہریش چندر فلم میں کُل 10 اداکار تھے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سب کے سب مرد تھے۔ اس زمانے میں ہندوستان صرف تھیٹروں سے آشنا تھا فلم بالکل نئی اور الگ چیز تھی، اس دور کے قدامت پرست معاشرے میں دادا صاحب کی فلم میں کام کرنے کے لیے کوئی عورت راضی نہ ہوئی تو بادل نخواستہ ہیروئن (یعنی راجا ہریش چندر کی بیوی رانی تارامتی )کا کردار بھی ایک مرد، انّا سالنکے نے کیا۔[3]
بھسماسر موہنی دادا پھالکے کی اسی سال دوسری فلم تھی، پہلی فلم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس فلم میں دو خواتین نے کام لیا۔ .درگا بائی کھوکھلے نے پہلی بار پاروتی کا کردار نبھایا جبکہ ان کی بیٹی کملا بائی نے موہنی کا۔ یہ دونوں ہندی فلم انڈسٹری کی پہلی اداکارہ کہلائیں۔ اس جت علاوہ یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی جس میں رقص شامل ہوا، جس کا مظاہرہ اداکارہ کملا بائی گوکھلے نے کیا ۔[3]
ہری لال سین بنگالی فوٹوگرافر، پہلے ہندوستانی جنہیں موشن پکچر کیمرا چلانے کا اعزاز حاصل ہوا، صرف سیاسی ڈوکیومنٹری تک ہی محدود رہے۔ اس سال انھوں نے ڈوکیومنڑی فلم ’’ہندو باتھنگ فیسٹیول‘‘ بنائی جو بدقسمتی سے ان کے اسٹوڈیو ’’رائل بائیواسکوپ‘‘ کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ سرمایہ کی کمی کی بنا پر یہ اسٹوڈیو 1913ء میں بند ہو گیا۔[4]
18 مئی 1912ء کو بمبئی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’شری پنڈلک ‘‘ [5] کے حوالے سے بعض طبقے اعتراض کرتے ہیں کہ اسے پہلی ہندوستانی فلم قراردیا جائے۔ لیکن اس فلم کا صرف موضوع اور اداکار ہندوستانی تھے، اس کے سنیماٹوگرافر جانسن برطانوی تھے اور فلم کی پوری ڈیولپمنٹ برطانیہ میں ہوئی اس لیے اسے انڈین فلم کا درجہ نہیں دیا گیا۔ چونکہ یہ فلم محض 12 منٹ کی تھی اور اس پوری فلم میں کیمرا ایک جگہ رہا تو اسے فیچر فلم کا درجہ نہیں دیا گیا۔
مقبول فلمیں
راجا ہریش چندر پھالکے فلم اسٹوڈیوز کی تیار کردہ اس فلم کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور کہانی نویس داداصاحب پھالکے تھے، فلم کے اداکاروں میں ڈی ڈی دابکے، پی جی سانے، بالا چندرا ڈی پھالکے، جی وی سانے، دتا تریہ شری ساگر، دتا تریہ تیلنگ، گنپت جی شنڈے، وشنو ہری اوندھکار، ناتھ ٹی تیلنگ اور انّا سالونکے شامل تھے۔ دلم کے کیمرا مین ٹرمبک بی تیلنگ تھے۔ فلم کا دورانیہ 40 منٹ پر مشتمل تھا۔ فلم کی لاگت بیس ہزار روپے تھی۔[6] اس فلم کا موضوع ایک ایسے راجا کی کہانی پر تھا جس نے سچائی کی خاطر اپنی سلطنت چھوڑ دی۔ اس فلم میں مذہبی عقائد و روایات اور خلوص و قربانی کا پرچار کیا گیا تھا۔ فلم کی کہانی اور مرکزی خیال رنچھوڑبائی اداریم اور ونایک پرساد طالب کے تھیٹر ڈرامے سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس فلم کا افتتاح معروف اور لیجنڈ مصور، راجا روی ورما نے کیا۔[7]
بھارتی فلمی صنعت میں پیدائش
بلراج ساہنی: پیدائش 1 مئی، 1913ء، بالی ووڈ کے معروف اداکار اور کہانی نویس۔ دوبیگا زمین، کابلی والا، گرم ہوا، دھرتی کے لال اور وقت جیسی فلموں میں کام کیا۔[8]
ماسٹر بھگوان: پیدائش 1 اگست، 1913ء، بالی ووڈ کے اداکار اور ہدایتکار۔ جھنک جھنک پائل باجے، البیلا اور میں نے پیار کیا جیسی فلموں میں کام کیا۔[9]
گوپی: پیدائش 11 اپریل، 1913ء، بالی ووڈ کے کریکٹر اداکار۔ راج کپور کے ساتھ فلم چوری چوری، شاردھا اور دیوآنند کے ساتھ فلم بادبان اور پاکٹ مار میں کام کیا۔[10]
شاہد لطیف: پیدائش 11 جون، 1913ء، کہانی نویس اور ہدایت کار۔ معروف مصنفہ عصمت چغتائی کے شوہر۔ بہاریں پھر بھی آئیں گی، آرزو، ضدی جیسی فلموں کے خالق ۔[11]
ایس این تریپاٹھی: پیدائش 14 مارچ، 1913ء، موسیقار، اداکار اور ہدایت کار۔ فلم علی بابا چالیس چور، بدیسیہ، کوی کالی داس کے لیے مقبول ۔[12]
آغا جی اے گل: پیدائش 19 فروری، 1913ء، پاکستان کے مشہور فلم ساز اور ایورنیو اسٹوڈیوز کے مالک۔ دلا بھٹی، ڈاچی اور مندری جیسی فلموں کے خالق۔[13]
مجنوں: پیدائش 2 نومبر، 1913ء، اداکار اور ہدایت کار۔ ہم سب چور ہیں، سن آف علی بابا، میرے حضور، شریمتی جی جیسی فلموں میں کام کیا ۔[14]
دیوجندر لال روئے :وفات 17 مئی، 1913ء، بنگالی کہانی نویس اور نغمہ نگار۔ ان کی کہانی کو تلیگو فلم ماتر بھومی اور نغموں کو بنگالی فلم سوریا ساکشی، اگنیشور میں لیا گیا۔[28]