ابو درداء
صحابی / From Wikipedia, the free encyclopedia
ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ (35ق.ھ / 32ھ) مشہور انصار صحابی ہیں، تارک الدنیا اصحاب صفہ میں سے تھے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ”حكيم هذہ الأمة“ اِس اُمت کے حکیم کا لقب عطا ہوا۔[2]آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصل نام عُوَیْمَر اور کنیت ابودرداء ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ زردی مائل خضاب استعمال فرماتے،سر مبارک پر ٹوپی پہنتے اور اس پر عمامہ شریف کا تاج سجاتے تھے جبکہ شملہ مبارکہ دونوں کندھوں کے درمیان پشت پر رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے تجارت کیا کرتے تھے،لیکن عبادت کے ذوق اور حساب کی شدّت کے خوف سے تجارت ترک کرکے یادِ الہٰی میں مصروف ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوری زندگی نہایت سادگی اور بے سرو سامانی کے عالَم میں گزار دی،ایک مرتبہ موسمِ سرما میں چند لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مہمان بنے، رات ہوئی تو آپ نے کھانا بھجوادیا مگر لحاف نہ بھجواسکے۔ اگلے دن وہ لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس شکایت کرنے پہنچے تو دیکھا کہ آپ اور آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ کے پاس سردی سے بچاؤ کے لیے لحاف تو کیا گرم لباس بھی نہیں ہے، ان کے چہرے پر ظاہر ہونے والی ناگواری کو حیرت میں بدلتے دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہمارا ایک اصلی گھر ہے جو بھی سامان جمع ہوتا ہے اسے ہم وہاں بھجوا دیتے ہیں، آخرکار ہمیں اسی (آخرت) کی جانب لوٹ کر جانا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ علمِ دین کی نورانی مجلس سجاتے ہوئے علم کے طلب گاروں کو شَرْعی مسائل بتاتے اور قرآنِ پاک صحیح تلفظ اور درست مخارج کے ساتھ پڑھنا سکھاتے تھے، چنانچہ روزانہ صبح آپ مسجد میں تشریف لاتے اور اس نورانی مجلس کو یوں سجاتے کہ ہر دس افراد پر ایک حلقہ بناتے اور اس پر ایک نگران مقرر کر دیتے جو انھیں پڑھاتا رہتا،اور اس دوران آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے رہتے اگر کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھ لیا کرتا اور تشفی بھر جواب پاتا،کبھی ایسا ہوتا کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے اور نگران ارد گرد بیٹھ کر کلماتِ مبارکہ کو بغور سنتے رہتے، پھر اپنے حلقوں کی جانب لوٹ جاتے اور جو کچھ سیکھتے وہ دوسروں کو سکھانا شروع کر دیتے۔ جب یہ نورانی مجلس ختم ہوتی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پوچھتے کہ کسی کے ہاں کوئی دعوت وغیرہ تو نہیں ہے؟ اگر جواب ”ہاں“ میں آتا تو وہاں تشریف لے جاتے،ورنہ روزے کی نیت کرلیتے اور ارشاد فرماتے کہ ”میرا روزہ ہے“ حالانکہ تمام حلقوں کا انتظام بخوبی سنبھالا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شرکاءِ مجلس کو شمار کیا گیا تو وہ سترہ سو سے زائد تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کو ناپسند فرماتے تھے چنانچہ جب کوئی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اونٹ ادھار لے جانا چاہتا تو فرماتے: اس پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا کیونکہ یہ اس کی طاقت نہیں رکھتا،جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اونٹ کی جانب توجہ کی اور فرمایا: کل بروزِ قیامت بارگاہِ الہٰی میں مجھ سے پوچھ گچھ نہ کرنا کیونکہ میں نے تیری طاقت سے زیادہ تجھ پر بوجھ نہیں ڈالا۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ میری اُمّت کے حکیم عُوَیْمَر (ابودرداء) ہیں۔[3] یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام حکمت و دانائی سے بھرپور ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: اے لوگو! خوش حالی کے ایام میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرو تاکہ وہ تنگی و مصیبت میں تمھاری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سن 32ھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں اس جہانِ فانی سے کُوچ فرمایا، آخری لمحات میں شدید گھبراہٹ طاری ہونے پر زوجہ محترمہ نے وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: میں تو موت کو محبوب رکھتا ہوں لیکن میرا نفس اسے پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے، پھر زبان پر کلمۂ طیبہ کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔[4] [5]
ابو درداء | |
---|---|
(عربی میں: أبو الدرداء) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 586ء مدینہ منورہ [1] |
وفات | سنہ 653ء (66–67 سال)[1] دمشق |
شہریت | خلافت راشدہ |
زوجہ | ام الدرداء الکبریٰ ام الدرداء الصغریٰ |
اولاد | بلال بن ابو درداء |
عملی زندگی | |
استاد | محمد بن عبداللہ |
نمایاں شاگرد | عبد اللہ بن عامر |
پیشہ | تاجر ، واعظ ، قاضی ، فقیہ ، محدث |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد |
درستی - ترمیم |