امان اللہ خان
From Wikipedia, the free encyclopedia
فرمانروائے افغانستان اپنے والد امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد 1919ء میں کابل میں تخت پر بیٹھے۔ چند ماہ بعد افغانستان کی تیسری جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں برطانوی افواج تین محاذوں مین مغلوب ہوئیں مگر معاہدہ راولپنڈی کی رو سے برطانیہ نے افغانستان کی مکمل خود مختاری کی قبول کی اور دونوں حکومتوں میں مساوی درجے پر تعلقات قائم ہو گئے۔ امان اللہ خان روشن خیال حکمران تھے۔ انھوں نے افغانستان میں مغربی طرز کا نظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کی۔ 1928ء میں ملکہ ثریا کے ہمراہ یورپ کا سفر کیا اور سوویت روس بھی گئے۔ وہاں کے سماجی انقلاب سے بہت متاثر ہوئے اور افغانستان میں سماجی اصلاحات کیں۔ اس پر افغانستان کے رجعت پسند حلقے ان کے خلاف ہو گئے۔ ادھر انگریز بھی اُن سے خفا تھے کیونکہ ان کا رجحان روس کی طرف تھا۔ انگریزوں نے بچہ سقا کو بغاوت پر آمادہ کیا اوراس کی مدد کی۔ 1929ء میں بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ امان اللہ خان یورپ چلے گئے اور روم میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں سویٹزرلینڈ چلے گئے جہاں 25 اپریل 1960ء میں وفات پائی۔
امان اللہ خان King Amanullah I غازي امان الله خان | |
---|---|
شاہ مملکت خداداد افغانستان[1] | |
خود مختار امیر افغانستان | |
28 جنوری 1919 – 9 جون 1926 | |
پیشرو | امیر نصراللہ خان |
جانشین | بذات خود (بطور شاہ) |
شاہ افغانستان | |
9 جون 1926 – 14 جنوری 1929 | |
پیشرو | بذات خود (بطور خود مختار امیر) |
جانشین | عنايت اللہ خان |
شریک حیات | ثریا طرزی |
نسل | دیکھیے
|
خاندان | بارکزئی خاندان |
والد | امیر حبیب اللہ خان |
والدہ | سرور سلطانہ بیگم |
پیدائش | 1 جون 1892(1892-06-01) پغمان، امارت افغانستان |
وفات | 25 اپریل 1960(1960-40-25) (عمر 67 سال) زیورخ، سوئٹزرلینڈ |
تدفین | جلال آباد، افغانستان |