بھارت کے خارجہ تعلقات
بھارت کے دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات / From Wikipedia, the free encyclopedia
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا اس کی تاریخ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی بھی اس کی تاریخ اور تحریک آزادی سے تعلق رکھتی ہے۔ تاریخی ورثے کے طور پر بھارت کی خارجہ پالیسی آج ان متعدد حقائق کی حامل ہے جو کبھی بھارت کی تحریک آزادی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پر امن بقائے باہم اور عالمی امن کا خیال یقیناً ہزاروں سال پرانے اس غور و فکر کا نتیجہ ہے جسے گوتم بدھ اور مہاتما گاندھی جیسے دانشوروں نے پیش کیا تھا۔ اسی طرح بھارت کی خارجہ پالیسی میں نو آبادیاتی نظام، سامراجیت اور تفریق رنگ و نسل کی مخالفت عظیم قومی تحریک کی پیداوار ہے۔
بھارت کے اکثر ممالک سے بہترین خارجہ اور سفارتی تعلقات ہیں، نیز بھارت دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس کی معیشت دنیا کی انتہائی تیز رفتاری سے ترقی والی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔[1] نیز آٹھواں سب سے بڑا عسکری اخراجات، تیسری سب سے بڑی مسلح فوج، قیمت اسمیہ کے لحاظ سے ساتویں سب سے بڑی معیشت اور مساوی قوت خریدکے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت[2] کا حامل بھارت ایک علاقائی طاقت،[3] ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور ممکنہ سپرپاور ہے۔ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر بھارت کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور عالمی معاملات میں اس کی اہمیت مسلم ہو چکی ہے۔
قدیم دور میں بھی ہندوستان کے تمام دنیا سے تجارتی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات تھے۔ مختلف ادوار میں ہندوستان کے علاحدہ علاحدہ خطوں میں متفرق بادشاہ آتے رہے اور ہندوستان کا نقشہ بھی تبدیل ہوتا رہا، لیکن عالمی سطح پر ہندوستان کے تعلقات ہمیشہ برقرار رہے۔ بھارت کے دیگر ممالک کے تئیں عسکری تعلقات دیکھے جائیں تو وہ بیشتر ادوار میں جارحانہ نہیں رہے۔
سنہ 1947ء میں برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد بھارت نے زیادہ تر ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔ عالمی منظرنامہ پر ہندوستان ہمیشہ فعال رہا۔ سنہ 1990ء کے بعد اقتصادی اور معاشی سطح پر بھی بھارت اثر انداز ہونے لگا، عسکری سطح پر بھارت نے اپنی طاقت کو برقرار رکھا اور عالمی قیام امن کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون فراہم کرتا رہا۔ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کچھ کشیدہ ضرور ہیں لیکن روس کے ساتھ عسکری تعلقات کے علاوہ بھارت کا اسرائیل اور فرانس کے ساتھ وسیع حفاظتی تعلقات ہیں۔
نیز بھارت ایک جدید صنعتی ملک، بریکس معیشتوں کا جزو اور ترقی پزیر دنیا کا اہم حصہ بھی ہے۔[4][5] مزید یہ کہ بھارت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا بانی رکن ہے، جن میں بالخصوص اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور جی 20 اہم معیشتیں قابل ذکر ہیں جبکہ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی بنیاد بھارت ہی نے رکھی تھی۔ بھارت کا دیگر متعدد بین الاقوامی تنظیموں مثلاً مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس،[6] عالمی تجارتی ادارہ،[7] بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)،[8] جی ایٹ + فائیو[9] اور ابسا ڈائیلاگ فورم[10] میں اہم اور موثر کردار رہا ہے۔ مقامی طور پر بھارت سارک اور بمس ٹیک کا رکن ہے۔ نیز بھارت نے متعدد اقوام متحدہ امن جوئی مہموں میں بھی حصہ لیا ہے اور 2007ء میں بھارت اقوام متحدہ میں دوسرا سب سے بڑا فوج بھرتی کرنے والا ملک تھا۔[11] اس وقت بھارت جی 4 اقوام کے ساتھ سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔[12]