سکھ دھرم کے بانی From Wikipedia, the free encyclopedia
گرو نانک دیو[4] (گرمکھی پنجابی: ਗੁਰੂ ਨਾਨਕ) کی پیدائش شہر ننکانہ صاحب، لاہور، پنجاب موجودہ پاکستان میں 15 اپریل، 1469ء کو ہوئی اور وفات 22 ستمبر، 1539ء کو شہر کرتار پور میں ہوئی۔ گرونانک سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو تھے۔ ان کا یوم پیدائش گرو نانک گرپورب کے طور پر دنیا بھر میں ماہ کاتک (اکتوبر–نومبر) میں پورے چاند کے دن، یعنی کارتک پورن ماشی کو منایا جاتا ہے۔[5]
گرو نانک | |
---|---|
(پنجابی میں: ਗੁਰੂ ਨਾਨਕ ਦੇਵ) | |
گرو نانک دیو - مصور راجا روی ورما | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 15 اپریل 1469ء رائے بھوے کی تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب، پنجاب، پاکستان) |
وفات | 22 ستمبر 1539ء کرتار پور، مغلیہ سلطنت، موجودہ نارووال، ضلع نارووال، پنجاب، پاکستان |
مذہب | توحیدیت یا اسلام[1][2] |
زوجہ | ماتا سلکھنی |
اولاد | سری چند ، لکھمی داس |
والدہ | ماتا ترپتا |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | سکھ گرو |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی [3] |
دور فعالیت | 1499ء–1539ء |
وجہ شہرت | سکھ مت کے بانی |
درستی - ترمیم |
گرونانک کو ’’زمانے کا عظیم ترین مذہبی موجد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے دور دراز سفر کرکے لوگوں کو اس ایک خدا کا پیغام پہنچایا جو اپنی ہر ایک تخلیق میں جلوہ گر ہے اور لازوال حقیقت ہے۔[6] انھوں نے ایک منفرد روحانی، سماجی اور سیاسی نظام ترتیب دیا جس کی بنیاد مساوات، بھائی چارے، نیکی اور حسن سیرت پر ہے۔[7][8][9]
گرونانک کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب، گرنتھ صاحب میں 974 منظوم بھجنوں کی صورت میں موجود ہے، جس کی چند اہم ترین مناجات میں جپجی صاحب، اسا دی وار اور سدھ گھوسٹ شامل ہیں۔ سکھ مذہب کے عقائد کے مطابق جب بعد میں آنے والے نو گروؤں کو یہ منصب عطا ہوا تو گرو نانک کے تقدس، الوہیت اور مذہبی اختیارات کی روح ان میں سے ہر ایک میں حلول کرگئی۔[10]
نانک نے 15 اپریل 1469ء کو لاہور کے قریب رائے بھوئی کی تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب، پنجاب، پاکستان) میں جنم لیا۔ ان کے والدین مہتا کالو (مکمل نام کلیان چند داس بیدی) اور ماتا ترپتا تھے، جو مذہباً ہندو تھے اور تاجر ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد تلونڈی گاؤں میں فصل کی محصولات کے مقامی پٹواری تھے۔
ان کی ایک بہن تھیں، جن کا نام بی بی نانکی تھا۔ وہ ان سے پانچ سال بڑی تھیں۔ 1475ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ سلطان پور چلی گئیں۔ نانک کو اپنی بہن سے بہت لگاؤ تھا چنانچہ وہ بھی اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ رہنے کے لیے سلطان پور جا پہنچے۔ تقریباً 16 سال کی عمر میں نانک نے دولت خان لودھی کے ماتحت کام کرنا شروع کیا جہاں بی بی نانکی کا شوہر بھی کام کرتا تھا۔ پوراتن جنم سکھی کے مطابق، یہ نانک کی تشکیل کا مرحلہ تھا اور ان کے بھجنوں میں سرکاری ڈھانچے سے متعلق جو حوالے ملتے ہیں، غالب اندازہ یہی ہے کہ ان کا علم اسی عرصے میں حاصل کیا گیا تھا۔
سکھ روایات کے مطابق، گرو نانک کی پیدائش کے وقت اور زندگی کے ابتدائی برسوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ نانک کو خدا کے فضل و رحمت سے نوازا گیا ہے۔ ان کے سوانح نگاروں کے مطابق، وہ کم عمری ہی سے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ پانچ برس کی عمر میں نانک کو مقدس پیغامات پر مشتمل آوازیں سنائی دینے لگیں۔ سات برس کی عمر میں ان کے والد نے انھیں اس وقت کے رواج کے مطابق گاؤں کے مدرسے میں داخل کروایا۔ روایات کے مطابق، کم عمر نانک نے حروف تہجی کے پہلے حرف میں، جو حساب میں عدد 1 سے مشابہت رکھتا ہے، جس سے خدا کی وحدانیت یا یکتائی ظاہر ہوتی ہے، مضمر رموز بیان کرکے اپنے استاد کو حیران کر دیا۔ ان کے بچپن کی دیگر روایات بھی نانک سے متعلق حیرت انگیز اور معجزانہ واقعات بیان کرتی ہیں، مثلاً رائے بولر سے منقول ایک روایت کے مطابق کم سن نانک جب سوئے ہوئے تھے تو انھیں تیز دھوپ سے بچانے کے لیے ایک درخت یا دوسری روایت کے مطابق، ایک زہریلا ناگ ان پر سایہ کیے رہا۔
24 ستمبر 1487ء کو نانک نے مل چند اور چندو رانی کی دختر، ماتا سلکھنی سے بٹالا میں شادی کرلی۔ اس شادی شدہ جوڑے کے ہاں دو بیٹے ہوئے، سری چند (8 ستمبر 1494ء – 13 جنوری 1629ء) اور لکھمی چند (12 فروری 1497ء – 9 اپریل 1555ء)۔ شری چند کو گرو نانک کی تعلیمات سے روشنی ملی اور آگے چل کر انھوں نے اداسی فرقے کی بنیاد رکھی۔
گرو نانک کی زندگی سے متعلق ابتدائی سوانحی ماخذات اب جنم سکھی کی صورت میں موجود ہیں۔ گرنتھ صاحب لکھنے والے بھائی گرداس نے اپنی ورس میں بھی نانک کی زندگی سے متعلق لکھا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں مسودات ہی نانک کی زندگی کے کچھ عرصے بعد تحریر کیے گئے، تاہم ان میں جنم سکھیوں کے مقابلے میں کم تفصیل ملتی ہے۔
گیان رتن والی کو بھائی مانی سنگھ سے منسوب کیا جاتا ہے جنھوں نے گرو نانک کی زندگی سے متعلق غلط واقعات کو درست بیان کرنے کی غرض سے اسے تحریر کیا۔ بھائی مانی سنگھ، گرو گوبند سنگھ کے سکھ تھے جن سے چند سکھوں نے درخواست کی تھی کہ انھیں گرو نانک کی زندگی سے متعلق ایک مستند سوانح تیار کرنی چاہیے۔
بھائی مانی سنگھ لکھتے ہیں:
” | جس طرح تیراک دریا میں سرکنڈے نصب کرتے ہیں تاکہ راستے سے ناواقف لوگ بھی اسے عبور کرسکیں، اسی طرح میں بھائی گرداس کی وار کو بنیاد بناؤں گا اور اسی کے مطابق، اور جو واقعات میں نے دسویں مالک کی بارگاہ میں رہتے ہوئے سنے انھیں پیش نظر رکھتے ہوئے، جو کچھ میرے عاجز دماغ سے بن پڑا، اسے آپ تک بیان کروں گا۔ | “ |
جنم سکھی کے انجام پر، ایک اختتامیہ موجود ہے جس کے مطابق مکمل کام گرو گوبند سنگھ کی خدمت میں پیش کیا گیا تاکہ وہ اس پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کریں۔ گرو صاحب نے اس پر دست خط کیے اور اسے سکھ عقائد سے متعلق علم حاصل کرنے کا ماخذ قرار دیا۔
ایک دوسری معروف جنم سکھی سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے گرو کے ایک قریبی ساتھی، بھائی بالا نے تحریر کیا۔ تاہم، اس کے انداز تحریر اور زبان سے محققین، جیسے کہ میکس آرتھر مکالیف، کو یقین ہے کہ یہ ان کے انتقال کے بعد ترتیب دی گئی ہیں۔ محققین کے مطابق، اس دعوے کو تسلیم کرنے میں شکوک و شبہات ہیں کہ اس کا مصنف گرو نانک کا قریبی ساتھی تھا اور ان کے کئی اسفار میں ان کے ساتھ رہا تھا۔
مقامی زمیندار، رائے بولر اور نانک کی بہن، بی بی نانکی، کم عمر نانک میں مقدس خصوصیات پہچاننے والے اولین افراد تھے۔ انھوں نے نانک کو مطالعہ کرنے اور سفر کرنے کی ہمت بندہائی۔ سکھ روایات کے مطابق 1499ء کے لگ بھگ، 30 سال کے عمر میں انھیں ایک کشف ہوا۔ وہ غسل کرکے واپس نہ لوٹ سکے اور ان کے کپڑے کالی بین نامی مقامی چشمے کے کنارے ملے۔ قصبے کے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ دریا میں ڈوب گئے ہیں؛ دولت خان نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے دریا کو چھان مارا، مگر ان کا نشان نہ ملا۔ گم شدگی کے تین دن بعد نانک دوبارہ ظاہر ہوئے، مگر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
جس دن وہ بولے تو انھوں نے یہ اعلان کیا:
” | نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان ہے، بلکہ سب صرف انسان ہیں۔ تو مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہیے؟ مجھے خدا کے راستے پر چلنا چاہیے۔ خدا نہ ہندو ہے اور نہ مسلمان، اور میں جس راستے پر ہوں، وہ خدا کا راستہ ہے۔ | “ |
نانک نے کہا کہ انھیں خدا کی بارگاہ میں لے جایا گیا تھا۔ وہاں انھیں امرت سے بھرا ایک پیالہ دیا گیا اور حکم ملا کہ
” | یہ نام خدا کی عقیدت کا پیالہ ہے۔ اسے پی لو۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ میری تم پر رحمت ہے اور میں تمھیں بڑھاتا ہوں۔ جو تمھیں یاد رکھے گا، وہ میرے احسانات سے لطف اندوز ہوگا۔ جاؤ، میرے نام کی خوشی مناؤ اور دوسروں کو بھی اسی کی تبلیغ کرو۔ میں نے اپنے نام کی عنایات سے تمھیں نوازا ہے۔ اسے ہی اپنی مصروفیت بناؤ۔ | “ |
اس واقعے کے بعد سے، نانک کو گرو (اتالیق، استاد) کہا گیا اور سکھ مت نے جنم لیا۔
سکھ مت کا بنیادی عقیدہ انتقام اور کینہ پروری کی بجائے رحم دلی اور امن کا پیغام پھیلانا ہے۔ سکھ مت حالیہ ترین قائم شدہ مذاہب میں سے ایک ہے۔ سکھ گرنتھ صاحب کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں؛ یہ مقدس کتاب سکھ مت کے دس میں سے چھ گروؤں کے علاوہ بعض دیگر بزرگوں اور عقیدت مندوں کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ گرنتھ صاحب کو سکھ مت میں سب سے زیادہ بالادستی حاصل ہے اور اسے سکھ مت کا گیارھواں اور آخری گرو تصور کیا جاتا ہے۔ سکھ مت کے پہلے گرو کی حیثیت سے، گرو نانک کے اس کتاب میں کل 974 بھجن شامل ہیں۔
نانک کی تعلیمات سکھ صحیفے گرو گرنتھ صاحب میں موجود ہیں، جو گرمکھی میں لکھے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔
گرو نانک کی تعلیمات سے متعلق دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک کی بنیاد، بقول کول اور سامبھی، مقدس جنم سکھی پر ہے جس کے مطابق سکھ مت 15ویں صدی میں اسلام اور ہندو مت کی ہم آہنگی کی کوشش یا معاشرتی احتجاج کی تحریک نہیں، بلکہ نانک کی تعلیمات اور سکھ مت خدا کی طرف سے الہام تھا۔ دوسرا نظریہ، بقول سنگھا، کہتا ہے کہ ’’سکھ مت اوتار کا نظریہ یا پیغمبری کا تصور پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا محور گرو کا تصور ہے جو خدا کا مظہر نہیں ہوتا اور نہ پیغمبر ہوتا ہے۔ وہ تو بس ایک روشن روح ہوتا ہے۔‘‘
مقدس جنم سکھیاں نانک نے خود نہیں لکھی تھیں، بلکہ بعد ازاں ان کے پیروکاروں نے تحریر کی تھیں جن میں تاریخی صحت کا خیال نہیں رکھا گیا اور نانک کی شخصیت کو محترم بناکر پیش کرنے کی غرض سے متعدد داستانیں اور قصے تخلیق کیے گئے۔ کول اور سامبھی واضح کرتے ہیں کہ سکھ مت میں ’مکاشفہ‘ کی اصطلاح صرف نانک کی تعلیمات سے مخصوص نہیں، بلکہ اس میں تمام سکھ گروؤں کے علاوہ ماضی، حال اور مستقبل کے مرد و عورتوں کے اقوال بھی شامل ہیں، جنھیں مراقبے اور غور و فکر کے ذریعے الہامی طور پر علم حاصل ہوا۔ سکھ مکاشفات میں غیر سکھ بھگتوں کے اقوال بھی شامل ہیں، جو نانک سے کی پیدائش سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے اور ان کی تعلیمات سکھ صحیفوں میں شامل ہیں۔ منڈیر کے مطابق، ادی گرنتھ اور جانشین سکھ گرووؤں نے مسلسل اس بات پر زور دیا کہ سکھ مت ’’خدا کی طرف سے آوازیں سننے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ یہ انسانی دماغ کی خاصیت تبدیل کرنے سے متعلق ہے اور کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت براہ راست مشاہدہ اور روحانی کاملیت مل سکتی ہے۔‘‘ گرو نانک نے تاکید کی کہ تمام انسان بغیر کسی رسوم یا مذہبی پیشواؤں کے، خدا تک براہ راست رسائی پاسکتا ہے۔
نانک ایک ہندو گھرانے میں پلے بڑھے تھے اور بھگتی سنت عقائد سے تعلق رکھتے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ گرو نانک اور سکھ مت کی بنیادیں قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں بھگتی تحریک کے نیرنگی (بے ہیئت خدا) عقائد سے متاثر ہوئیں۔ تاہم، سکھ مت صرف بھگتی تحریک کی توسیع نہیں تھی۔ بلکہ سکھ مت کئی معاملات میں بھگتی سنت کبیر اور روی داس سے اختلاف کرتا ہے۔
لوئس فینیچ کے مطابق، سکھ عقائد کی جڑیں غالباً ہندوستان کے سنت-عقائد سے جڑی ہیں، جن کے نظریات نے بھگتی عقائد کی صورت اختیار کی۔ فینیچ مزید کہتے ہیں کہ، ’’مقدس سکھ صحیفے، گرو گرنتھ صاحب اور ثانوی صحیفے، دسم گرنتھ میں ہندوی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں اور عصر حاضر کے سکھوں اور ان کے اسلاف کے مقدس علامتی جہان میں بہت نازک فرق شامل کرتی ہیں۔‘‘
سکھ روایات کے مطابق نانک نے بھائی لہنا کو اپنا جانشین گرو مقرر کیا اور ان کا نام گرو انگد رکھا، جس کے معنی ’’بہت ہی اپنے‘‘ یا ’’اپنے حصے‘‘ کے ہیں۔ بھائی لہنا کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد، گرو نانک 22 ستمبر 1539ء کو کرتار پور میں، 70 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
جب گرو نانک جی 1474ء میں پانچ سال کے ہوئے تو تعلیمی دور شروع ہوا۔ جنم ساکھی بھائی بالے والے اردو کے صفحہ 17 پر لکھا ہے کہ جب پنڈت گوپال جی نے آپ کو پڑھانا شروع کیا۔ تو انھوں نے اسے کھری کھری باتیں سنانی شروع کر دیں۔ کہنے لگے پنڈت جی سب پڑھنا لکھنا فضول ہے۔ پڑھائی وہی ٹھیک ہے جو سنسار کی پڑھائی ہے۔ یہ تو ایسی ہے۔ جیسے کسی دیے کی سیاہی ، کاغذ سنی ، قلم کانے کا ، من لکھنے والا۔ لکھا تو کیا کیا لکھا مایا جنجال لکھا؟ رائے بلارتلونڈی کا ایک مسلمان راجپوت رئیس تھا۔ جب اس نے سنا کہ گرو نانک اداس اور خاموش رہتے ہیں اور کالو رام جی بیٹے کی وجہ سے دکھی رہتے ہیں تو بلار نے کالو رام کو بلا کر کہا : کالو! آپ فکر نہ کریں۔ گرو نانک کو ملاؤں کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھا دیں ، جب فارسی پڑھیں گے تو خود بخود عقلمند ہو جائیں گے۔ سوڈی مہربان جی بیان کرتے ہیں کہ گرو نانک جی کو اسلامی تعلیم دلانے کا انتظام خود ان کے والد بزرگوار نے کیا تھا۔ چنانچہ ان کے پڑوس میں ایک مسلمان درویش سید حسن رہا کرتے تھے جنھوں نے بخوشی پڑھانا قبول کر لیا۔ مولوی غلام محمد صاحب مصنف سیر المتاخرین اور محمد لطیف مصنف تاریخ پنجاب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک مشہور مسلمان درویش سید حسن صاحب نے نانک جی کو ہونہار دیکھ کر اسلام کے مستند عقائد سے واقفیت کرا دی۔ ان کے زیر گرو جی نے پنجابی کے محاورے مادری زبان میں بانی بنانی شروع کر دی تھی۔
گرو جی کو اپنے آبائی مذہب ہندو دھرم اور ویدک دھرم کے ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک رسم سے اس لیے اتنی نفرت ہو گئی تھی کہ آپ کے اتالیق مسلمان بزرگ تھے اور انھوں نے بڑی محبت اور پیار سے آپ کو تعلیم دی۔ دینی اور دنیاوی علوم سکھائے جن کا آپ کے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور وہ آپ کی تمام زندگی پر حاوی رہا۔ سیرۃ المتاخرین میں لکھا ہے کہ نانک شاہ کا باپ بقال کھتری سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر جوانی میں یہ شخص اپنے حسن کردار اور حسین چہرہ کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ انھی دنوں سید حسن نامی درویش ہو گذرا ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور مال و زر کا بہت چرچا تھا۔ وہ چونکہ لاولد تھا اس لیے وہ نانک شاہ کی خوبصورتی سے اتنا محسور ہوا کہ اس نے نانک شاہ پر دست شفقت پھیرا اور اس کی تربیت کرنے لگا۔ اس درویش کے فیض سے نانک جی نے شعور و دانش حاصل کیا۔ علم معرفت اور حقائق کا گہرا مطالعہ کیا اور درس علم سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ صوفیوں کے ان اقوال کو پنجابی میں ترجمہ کرنے لگا جس کو پڑھ کر وہ جھوم جاتا تھا۔ اس کے ذہن میں اپنے بزرگوں کی طرح تعصب نہ تھا وہ اس عیب سے بالکل مبرا اور پاک تھا۔[11]
جب بابا گرو نانک جی بائیس سال کے ہوئے تو سلطان پورہ میں دولت خان لودھی کی دکان داری کرتے تھے۔ انھیں دنوں میں آپ کے گھر دو لڑکے پیدا ہوئے۔ جن کا نام سری چند اور دوسرے کا لکھمی داس تھا۔ تب مولا چونا نواب صاحب کے پاس جا کر فریاد کرنے لگا۔ نواب دولت خاں نے کہا: ارے یار خاں یہ کون ہے اور کس کے او پر فریاد کر رہا ہے۔ تب مولا نے کہا میں آپ کے مودی نانک کا سسر ہوں اور ان پر فریادی ہوں۔ نواب نے کہا ارے یارخاں اسے آگے لے آؤ۔ یار خاں مولا کو نواب کے نزدیک لے گیا۔ نواب نے پوچھا۔ آپ ان پر کیا فریاد چاہتے ہیں۔ مولا نے کہا نواب سلامت سات سو ساٹھ روپے جو حساب سے نانک کے آپ کی طرف نکلتے ہیں۔ وہ آپ نانک کے قبیلے (بیوی) کو دے دیں۔ ارے مولا نانک نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ روپیہ فقیروں کو دے دو۔ تب پھر مولا نے کہا جی نانک کا آپ کیا ذکر کرتے ہیں۔ ذرا آپ ہی انصاف کی نگاہ سے دیکھیں تب نواب نے کہا ارے یار خاں حق تو ایک ان کا ہی ہے مگر نانک کہے تو۔ مولا جا کر پھر نانک سے جھگڑنے لگا گر کما کر نہیں لائے تو پھر یہ کمایا ہوا فقیروں کو کیوں دیتے ہو۔ میری بچی کا تو خیال کرو۔
نانک جی نواب بہت غصے ہورہا ہے لہذا آپ کا جانا ہی بہتر ہے۔ یہ سن کر نانک جی اٹھ کھڑے ہوئے اور نواب کے پاس آئے مگر سلام نہ کیا۔ تب نواب نے کہا ارے نانک آپ کیوں نہیں آتے تھے۔ نانک جی نے کہا جب میں آپ کا نوکر تھا تو آپ کا تابعدار بنا ہوا تھا اور آپ کے پاس آتا جاتا تھا ، اب ہم آپ کے نوکر نہیں ہیں۔ اب تو ایشور کے چاکر ہو گئے ہیں۔ تب نواب نے کہا اچھا اگر ایسا ہی ہے تو چ لیے ہمارے ساتھ نماز گزاریے آج جمعہ کا روز ہے۔ نانک نے جواب دیا بہت اچھا چ لیے۔ جتنے لوگ نماز پڑھ رہے تھے سب کہنے لگے یہ عجیب معاملہ ہے کہ گرو نانک جی نماز گزارنے آئے ہیں۔ ادھر جتنے مہاجن لوگ سلطان پور میں رہتے تھے سب میں یہ شورو غل مچ گیا کہ نانک جی مسجد میں نماز گزارنے چلے گئے۔ بھائی جیرام (آپ کا بہنوئی) بھی بہت رنجیدہ ہو کر گھر ہوٹے۔ نانکی جی (نانک جی کی بہن) سمجھ گئی اور کہنے لگی کہ آپ اتنے دلگیر کس لیے ہیں۔ جیرام جی نے جواب دیا کہ آج تمھارا بھائی نانک نے کیا کیا۔ نانکی جی نے کہا کیوں کیا بات ہے۔ جیرام نے کہا کہ نانک جی نواب کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد کے اندر چلے گئے اور سارے شہر کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس بات کا چرچا ہو گیا ہے کہ آج نانک ترک ہو گیا ہے۔[12]
گورونانک جی کی عمر بائیس سال کی ہوئی تو سلطان پور لودھیاں (بئیں ندی کے کنارے ایک خوبصورت قصبہ آباد ہے ریاست کپور تھلہ ضلع جالندھر) میں دولت خان لودھی کا مودری خانہ چلاتے رہے۔ بابا نانک کو یہ گیان مارگ اور یہ ودیک جو ملا وہ بغیراستاد کے نہیں ملا۔ ان کے مربی میرحسین صاحب قبلہ پیر جلال ، میاں مٹھا ، پیر عبد الرحمن ، پیر سید حسن صاحب ، بابا بڈھن شاہ ، شیخ ابراہیم اور شیخ مرید ثانی جیسے برگزیدہ ہستیوں سے ملا۔ جس کا گواہ خود گرو گرنتھ صاحب ہے اور جس میں فرید ثانی صاحب کا بہت سا کلام موجود ہے۔ ان بزرگوں کی صحبت سے علم قرآن حکیم ملا۔ صوفیائے کرام کے سلسلہ میں عربی ، فارسی اور ترکی زبان سیکھیں۔ جب سے ہندو دھرم کو ترک کیا اس سے آخری دم تک مسلمان ہی آپ کے ساتھ رہے جب وصال کا وقت آیا تو قوم کی غیرت میں ہندوؤں نے جنازہ پر جھگڑا شروع کر دیا۔ جب گرو جی نے ہندو دھرم کو نجات سے خالی پا یا تو چھتری دھرم کی بنیاد جنیئو تھا۔ نو سال کی عمرمیں اسے نکال پھیکا۔ دھوتی اور ٹیکا ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا تاکہ یہ شرک کے نشانات پھر کبھی نزدیک نہ آنے پائیں۔ ایسی صورت میں ہندو آپ کے ساتھ کیے رہ سکتے تھے۔ آپ نے تو ہندوؤں کے بت کدہ پر کلہاڑا مارا تھا۔ بابا کے دو ساتھی جو ہر وقت بابا کے ساتھ رہتے تھے مسلمان تھے۔ اکٹھے کھاتے پیتے رہتے اور ان میں کوئی امتیاز نہیں تھا یہ اسی وقت ممکن ہے۔ جب مذہبی اور نظریاتی طور پر ایک ہوں۔
شاہ شمش سبزواری ملتان شریف - شاہ شمس صاحب کے روضے کی جانب میں وہ مکان ہے ۔ جو سپہ نانک کہلاتا ہے۔ روضہ کی جنوبی دیوار میں ایک وہ مکان ہے جو محراب نما دروازوں کی شکل کا بنا ہوا ہے۔ اس پر یا اللہ اور نیچے نانک صاحب کا پنجہ بنا ہوا ہے۔ حضرت تحسین شاہ صاحب رئیسں ملتان و سجادہ نشین شمس سبزواری کا بیان ہے کہ با واگرونانک صاحب کے والد بھاٹی کا لو اور ان کے دادا مستمی بھائی سو بھابھی اسی سلسلہ کے مرید تھے۔ خدا کی صفت ہُو ہے جو شمس سبزواری کا ورد تھا باوا صاحب کا بھی وہی ورد رہا۔ بجز یاہو من ہو ۔ دگر چیزے لمے دانم
جنم ساکھی گرونانک جی صفحہ 137 سے معلوم ہوتا ہے کہ گروجی ملتان کے مشہور بزرگ حضرت پیر بہاؤ الدین صاحب کے مزار پربهی بڑی عقیدت سے گئے تھے۔
گرو نانک جی نے اپنے سفروں میں مکہ معظمہ ایک سال تک قیام کیا اور وہاں مختلف علما سے توحید وغیرہ کے مسائل وغیرہ پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ جیسا کہ مرقوم ہے کہ ایک سال گرو جی نے مکہ و مدینہ کے باشندوں سے گفتگو کرتے گزار دیا اور رکن الدین کی یہ گفتگو مکے کے کسی گوشہ میں مرقوم ہے۔ (مگر اس گفتگو کا کوئی عینی ثبوت نہیں مل سکا)[15] گرو نانک جی نے ایک سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ٹھہرنے کے علاوہ بغداد شریف میں چھ سال گزارے اور آپ نے ایک مسلمان بزرگ حضرت مراد کے ہاتھ پر بیعت کی۔ سردار ہرچرن سنگھ جی نرمان نے کہا ہے کہ گرو نانک جی کا مرشد (گرو) بغداد کا ایک مسلمان پیر تھا۔ جس کی خدمت میں آپ چھ سال بغداد رہ کر روحانیت کا سبق سیکھتے رہے۔[16] گرو صاحب نے عام میل جول اور برت برتاؤ میں نیز کھانے پینے میں ذات پات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ اسلامی ملکوں میں گئے تو مسلمانوں کے گھروں سے کھانا کھاتے رہے۔[17] پروفیسر سنگھ جی صاحب نے کہا ہے کہ تیسری اداسی میں عرب ، ایران ، افغانستان وغیرہ اسلامی ملکوں میں ست گرو جی نے تقریباً تین سال گزارے ہیں۔ تین سال کی روٹیاں ہندوستان سے تو پکا کر نہیں لے جا سکتے تھے۔
جغرافیائی تفصیلات تنازع کا موضوع ہیں، جدید اسکالر کے ساتھ بہت سے دعووں کی تفصیلات اور صداقت پر سوالیہ نشان ہے۔ مثال کے طور پر، Calvert اور Snell (1994) کا کہنا ہے کہ ابتدائی سکھ تحریروں میں ایسی کہانیاں نہیں ہیں۔[18] [19]
یہ ایک گونہ آپ کی وصیت ہے جو آپ اپنے چیلوں کی راہنمائی اور ہدایت کے لیے اس دنیائے فانی میں چھوڑ گئے ہیں۔ یہ چولہ کابلی مل کی اولاد کی جو آپ کی نسل میں سے ہیں تحویل میں ہے۔ یہ چلولہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں موجود ہے ۔ اس پر تقریباً تین صد رومال لپٹے ہوئے ہیں۔ سکھوں کا بیان ہے کہ اس پر آسمانی کلام لکھا ہوا ہے۔ جس سے بابا جی نے ہدایت پائی۔ درحقیقت یہ چولہ آپ کو بغداد شریف سے ملا تھا جس پر کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے اس کے علاوہ قرآنی آیتیں سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص، آیت الکرسی، سورہ نصراور دیگر آیات بعمہ اسمائے حق تعالے درج ہیں۔ یہ اسلام کے لیے بابا جی کی ایک زبردست گواہی ہے ۔ اس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور نیچے کلمہ طیب ، سامنے خوشخط حروف میں لکھا ہوا ہے اس پر موٹے حروف میں یہ لکھا موجود ہے ان الدين عنداللہ الإسلام ، یعنی سچا دین صرف اسلام ہی ہے اور کوئی نہیں ۔ پھر چولہ صاحب پر یہ بھی لکھا ہوا ہے : - أشهد أن لا الہ الا اللہ واشهد ان محمدا عبدہ ورسولہ کسی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن حکیم خدا کا کلام ہے اس کو ناپاک ہاتھ مت لگائیں ۔ آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق زارتھے۔ آپ دین اسلام پر نہایت فدا ہو چکے تھے۔ اب یہ چولہ آئندہ نسلوں کے لیے بطور وصیت نامہ اور ہدایت نامہ چھوڑ گئے ہیں۔ جس کا جی چلے ۔ وہاں جاکر دیکھ لیں۔ ایک اور چولہ بمقام موضع چولہ ضلع امرتسر میں بھی موجود ہے ۔ جو غالبا بعد ازاں تیار کیا گیا۔ جس کی ہسٹری صیغہ راز میں ہے مگر بغداد والا اصل چغہ ڈیرہ بابا نانک میں بیدیوں کے زیرحفاظت ہے جو بابا جی کی نسل میں سے ہے اور بیدی صاحبان سے پکارے جاتے ہیں۔ بابا گرو نانک نے اپنے پیچھے اپنے متقدین کے لیے اگر کوئی قابل احترام اور تاریخی چیز چھوڑی ہے تو وہ یہ بغداد والا چولہ ہے۔ ایک خدا کا بندہ رائے بھوئے بھٹی کی تلونڈی میں جس کی ماتا ترتپا ، باپ کالورام ، چچا لالورام اور دادا بھائی سوبھا تھا پیدا ہوا۔ یہ تمام کا تمام خاندان سخت بت پرست تھا۔ بت پرستوں کے گھرانے میں جنم لے کر پنجاب کی سرزمین کو خدا کے نور سے منور کر کے کلمہ طیبہ کا نعرہ لگایا۔ انھوں نے یہ تاریخی چول قرآنی آیتوں والا اپنے پیچھے سچے خالصہ سکھوں کے لیے چھوڑا۔ کاش وہ اس چولہ کو نیز گرنتھ صاحب کے مندرجات کو غور سے پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔ یہ چولہ ایک سوتی کپڑے کا ہے جس کا رنگ خاکی ہے اور بعض کناروں پر کچھ سرخی نما بھی ہے۔ (یہ سرخی تعصب کے زمانہ میں ڈالی گئی تھی) جو انگدر کی جنم ساکھی میں لکھاہے کہ اس پر تیسں سپارے قرآن کریم کے لکھے ہیں غلط ہے۔ تیس پارے اتنی تھوڑی جگہ پر کیسے لکھے جا سکتے ہیں۔ تمام اسمائے الہی نہیں چند نام اللہ کے درج ہیں۔ بعض جنم ساکھیوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ چولہ پر عربی ، فارسی ، ترکی ، ہندی اور سنسکرت پانچ زبانوں میں لکھی ہے یہ غلط باتیں جنم ساکھیوں میں کیوں لکھ دیا کرتے تھے۔ وہاں توصرف عربی زبان میں آیات درج شدہ ہیں۔ آخر اس قسم کی اختراع کرنے کا دلی مقصد کیا تھا۔ محترمی عبد الرؤف صاحب مبلغ اسلام دیندار انجمن کراچی نمبر 19 و مصنف کتاب گرو نانک ہندو نہیں تھے تو سکھ کیسے ہندو ہوں گے؟ گرو نانک کی پانچ سو سالہ برسی پر 23 نومبر 1929 کو بمقام ننکانہ پہنچے ، ان کی گفتگو ڈیرہ بابا نانک کے متولی سردار بلونت سنگھ صاحب سے ہوئی۔ جن کا سلسلہ گرو نانک کی چوتھی پشت سے ملتا ہے۔ شرومنی اکالی دلی کمیٹی امرتسر کی مجلس عاملہ کے رکن گیانی بھونپدر سنگھ کے علاوہ اور کئی سکھ سردار موجود تھے ، انھوں نے پوچھا سردار جی آپ بتلائیں کہ چولہ صاحب آپ کی نگرانی میں ہے ، آپ سچ سچ بتائیں کہ اس پر عربی آیتوں کے سوا کسی اور زبان کا لفظ موجود ہے۔ انھوں نے تمام حاضرین کی موجودگی میں اقرار کیا کہ نہیں ، سوائے عربی کے اور کوئی حروف نہیں ہیں۔ یہ باتیں پارٹی لیڈر تھونپدر سنگھ پارلمینٹ ممبر دہلی کے سامنے ہوئی تھیں۔
سکھ تاریخ سے یہ امر واضح ہے کہ گورونانک جی نے مسلماؤں سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک مسلمان عورت سے شادی بھی کی تھی ۔ جس کا اصل نام بی بی خانم تھا لیکن سکھ تاریخ میں اسے ماتا مجھوت کے نام سے موسوم کیا گیاہے۔ گرو جی کی اس شادی کا ذکر جنم ساکھیوں کے قلی نسخوں میں موجود ہے ۔ چنانچہ مرقوم ہے کہ
اس جنم ساکھی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پہلی بیوی اور ان کے سسرال نے اس شادی کو بہت ناپسند کیا۔ ان کی یہ نا پسندیدگی فطری تقاضا تھا۔[21] یہ بات ظاہر ہے کہ پورے براعظم پر مسلمان حکمران ہوں تو ایسی صورت میں کوئی معزز مسلمان اپنی معزز دختر کو کسی ہندو لڑکے سے بیاہنے پر آمادہ ہو۔ پس گرو نانک جی کی یہ شادی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ گرو نانک جی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے اسی بنا پر حیات خان منجھ نے اپنی لڑکی بی بی خانم کو آپ کے نکاح میں دے دیا تھا اور اس کے بطن سے آپ کے ہاں جنم ساکھیوں کے بقول اولاد بھی ہوئی تھی۔ اگر موجودہ دور کے سکھ وددان اس شادی سے انکار کر رہے ہیں تو وہ مجبور ہیں کیونکہ رسم گرو جی کا فتوی بھی یہی ہے کہ جو شخص مسلمان عورت سے شادی کرے تو اس کے اسلام میں کوئی شک نہیں۔[22]
سکھ تاریخ میں مرقوم ہے کہ گرو نانک جی نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں دریائے راوی کے کنارے کرتار پورا ایک قصبہ آباد کیا تھا جو آج کل تحصیل شکر گڑھ میں دربار صاحب نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قصہ کو آباد کرنے کے لیے ایک مسلمان رئئس مالک نے کافی زمین بھینٹ کی تھی۔[23] گروجی نے جب یہ قصبہ آباد کیا تھا تو اپنے گھر کے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی اور اس میں نماز پڑھانے کے لیے ایک امام بھی مقرر کیا تھا۔ گرو جی کی وفات پر مسلمانوں نے یہ بات بھی گرو جی کے مسلمان ہونے کے ثبوت میں پیش کی تھی۔[24]
صاحب میرا ایکو ہے | ایکو ہے بھائی ایکو ہے | |
آپے مارے آپے چھوڑے | آپ لیو دیئے | |
آپے دیکھے وگے | آپے نذر کریئے | |
جو کچھ کرنا سو کر رہیا | اور نہ کرنا جائی | |
جیسا درتے تیسو کہیئے | سب تیری وڈیائی |
ایکو جپ ایکو صالاح | ایک سمرا ایکو من آہ | |
ایکس کے گن گاؤ اننت | تن من بھگو نت | |
ایکو ایک ایک ہر آپ | پورن پور رہیو پربھو بھوبیاپ | |
ایک لبتھار ایک تے بھئے | ایک ارادھ پراچھت گئے | |
من تن انتر ایک پربھو داتا | گورو پرساد نانک اک جاتا |
نام لیو جس اکھر دا | اسنوں کر یو چوگنا | |
دو ہور ملا کے پنج گنا | کا لٹو بیس بٹا | |
باقی بچے سو نو گن کر دو ہور ملا | نانکا ہر اس اکھر وچوں نام محمدا |
اسے دوسری شکل میں یوں بھی دیا گیا ہے
لو نام چرا چر | چوگنا کرو تا | |
دو ملا کر پانچ گنا | کا لٹو بیس بٹا | |
جو باقی رہے سو نو گن دو نو ہور ملا | نانکا اس بد ہر کے نام محمد لو بنا |
کوئی نام لو اس کے حروف گن لو پھر اس کی تعداد کو 4 کے ساتھ ضرب دو۔ حاصل ضرب میں 2 جمع کر دو۔ جو جواب ملے اسے 5 کے ساتھ ضرب دے دو۔ اب حاصل ضرب میں 2 کو جمع کرو۔ جواب ہمیشہ 92 آئے گا۔
جنم ساکھی بھائی بالا صفحہ 213 پر ہےپڑھ پکار قرآن بوہ خاطر جمع نہ ہوئے | جو راہ شیطانی گم تھیئے جان کر نہ کوئے |
تریہی حرف قرآن دے تہی سپارے کیں | تس وچ بہت نصیحتاں سن کر کرو یقین |
لعنت بر سر تنہا جو ترک نماز کریں | تھوڑا بہت کھٹیا ہتھوں ہتھ گوین |
ان لوگوں پر لعنت جو نماز ترک کریں ، جو کچھ تھوڑا بہت عمل کیا تھا اس کو بھی دست بدست ضائع کیا۔
جنم ساکھی سری گرو نانک جی صفحہ 16 پر ہےسوئی قاضی جن آپ تجیا | ایک اک نام کیا ادھا رو | |
ہے بھی ہو سی جائے نہ جا سی | سجاسہ جن ہا رو | |
پنج وقت نماز گزارے | پڑھے کتب قرآنا | |
نانک آکھے گور سد پہی | رہیو پینا کھانا |
فریدا بے نماز کتیا | ایہہ نہ بھلی ریت | |
کبھی چل نہ آیا | پنچ وقت مسیت | |
اٹھ فریدا نماز ساج | صبح نماز گزار | |
جو سر سائیں نہ نیویں | سو سرکپ اتار | |
جو سر سائیں نہ نیویں | سو سر کیجئے کائیں | |
کنے ہیٹھ جلائیے | بالن سنڈرے تھائیں |
پنج نمازاں وقت پنجے | پنجے نیچا ناؤں | |
پہلا سچ حلال دوئے | تیجا خیر خدائے | |
چوتھی نیت راس من | پانچویں حمد بیان کرنا | |
کرنی کلمہ آکھ کے | تاں مسلمان سدائے | |
نانک جیتے کوڑ یار | کوڑے کوڑی پائے |
ڈکشنری آف اسلام صفحات 583 تا 591 پر لکھا ہے کہ جب نانک اور شیخ فرید نے سفرمیں مدافقت اختیار کی تو ایک گاؤں بسیار نامی میں پہنچے جہاں کہیں بیٹھے تو ان کے اٹھ جانے کے بعد وہاں کے ہندو لوگ جگہ کو گائے کے گوبر سے لپائی کرکے پاک کرتے۔ اس کا باعث صاف یہ ہے کہ سنحت پابند مذہب کے ہندو ان دونوں رفیقوں کی نشت گاہوں کو ناپاک خیال کرتے تھے۔ اگر نانک مذہب کے لحاظ سے ہندو رہتا تو ایسی باتیں اس کی نسبت کبھی تذکور تر ہوتیں۔ سکھوں کے گروں کی تعلیمات میں ہم صاف صاف تصوف کی آمینرش پاتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ پہلے گرو فقراء کے لباس اور وضع میں زندگی بسر کیا کرتے تھے اور اس طریق سے صاف ظاہر کرتے تھے کہ مسلمانوں کے فرقہ صوفیائے کرام سے ان کا تعلق ہے۔ تصاویر میں انھیں ایسا دکھایا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گلدستے ان کے ہاتھوں میں ہیں (جیسا کہ مسلمانوں کا طریقہ تھا) اور طریق ذکر کے اداکرنے پر آمادہ ہیں ۔ ان کی کی نسبت جو روایات جنم ساکیبوں میں محفوظ ہیں وہ پوری شہادت دیتی ہیں کہ ان کا تعلق دین اسلام سے تھا۔
یہی پنجہ صاحب کی وجہ تسمیہ ہے۔ گوردوارہ پنجہ صاحب سے متعلق بھی سکھ تاریخ میں مرقوم ہے کہ اس میں حوض اور بارہ دری وغیرہ ہے اس کی تعمر خود شمش الدین نے کروائی تھی۔[43]
نے گرو صاحب سے کہا کہ میں اپنے مہمان کی اب مزید خدمت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اب میں اپنا مکان ہی مہمان (گرو جی) کو پیش کرتا ہوں۔[48]
گرو نانک سنہ 1539ء کو کرتار پور میں فوت ہوئے تو روایت کہ مطابق مقامی سکھ، ہندو اور مسلمان ان کی آخری رسومات کے حوالے سے آپس میں لڑنے لگ گئے۔ دونوں اپنی اپنی مذہبی روایت کے مطابق ان کی آخری رسومات کرنا چاہتے تھے۔ اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ بابا گرو نانک کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہو چکی تھی اور اس جگہ مقامی لوگوں کو پھول پڑے ملے تھے۔[1]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.