کریمیائی تاتاریوں کی جبری ملک بدری
From Wikipedia, the free encyclopedia
سورگون (معنی "جلا وطنی" بزبان کریمیائی تاتاری اور ترکی) 1944ء میں کریمیا کے تاتاریوں کی موجودہ ازبکستان کی جانب جبری ہجرت اور قتل عام کو کہا جاتا ہے۔ سوویت اتحاد میں جوزف استالین کے عہد میں 17 مئی، 1944ء کو تمام کریمیائی باشندوں کو اُس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراً منتقل کر دیا گیا تھا۔ استالین عہد میں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزا اجتماعی طور پر پوری قوموں کو دینے کی روش اپنائی گئی جس کا نشانہ کریمیا کے تاتاری باشندے بھی بنے جن پر الزام تھا کہ انھوں نے نازی جرمنوں کا ساتھ دے کر روس کے خلاف غداری کا ثبوت دیا ہے۔ اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے این کے وی ڈی کے 32 ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا اور ایک لاکھ 93 ہزار 865 کریمیائی تاتاری باشندوں کو ازبک و قازق اور دیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیا گیا۔[7][8][9]
کریمیائی تاتاریوں کی جبری ملک بدری Deportation of the Crimean Tatars | |
---|---|
بسلسلہ سویت یونین میں جبری نقل مکانی اور دوسری جنگ عظیم | |
مقام | جزیرہ نما کریمیا |
تاریخ | 18–20 مئی 1944 |
نشانہ | کریمیائی تاتار |
حملے کی قسم | جبری نقل مکانی، نسلی صفایا |
ہلاکتیں | متعدد تخمینے ا) 34,000[1] ب) 40,000–44,000[2] ج) 42,000[3] د) 45,000[4] ہ) 109,956[5] (ان کی کل آبادی کا 18 اور 46 فیصد کے درمیان[6]) |
مرتکبین | این کے وی ڈی، سوویت خفیہ پولیس |
اس جبری ہجرت کے دوران میں مئی سے نومبر کے مہینے میں 10 ہزار 105 تاتاری بھوک و موسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے جو ازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے کل باشندوں کا 7 فیصد بنتا ہے۔ خفیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے اندر اندر تقریباً 30 ہزار تاتاری (کل مہاجرین کا 20 فیصد) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کریمیائی تاتاریوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 46 فیصد تھی۔ استالین کے عہد میں سزا کے طور پر جبری مشقت کا نظام گولاگ قائم کیا گیا تھا اور سوویت دستاویز ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کو اس نظام کے تحت جبری مشقت پر بھی لگایا گیا۔[10] جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیا کے تاتاری اور کئی دیگر قوموں کے باشندوں کو سائبیریا بھی بھیجا گیا۔
کریمیا کے تاتاریوں کا مطالبہ ہے کہ سرگون کو منظم قتل عام (مرگ انبوہ) قرار دیا جائے۔[11]
کریمیا کے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔ 1944ء اسی جبری وطن بدری کا تسلسل ہے۔ یہ سلسلہ 1783ء سے شروع ہوا جب روس نے کریمیا پر قبضہ کیا۔ اس قتل عام اور جبری وطن بدری پر پردہ پوشی کی جاتی رہی مگر موجودہ دور میں روس کے ٹوٹنے کے بعد سوویت عہد کے خفیہ ادارے کے جی بی کی دستاویزات سامنے آنے سے اس ظلم سے کچھ پردہ ہٹا خصوصاً 1944ء اور اس کے بعد کے مظالم سامنے آئے۔ برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمار کے ظلم سے جو 1783ء میں شروع ہوا، تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپید ہونے لگے۔ تاتاریوں نے دو قسم کی ہجرت کی۔ ایک ہجرت کریمیا سے ان علاقوں کی طرف تھی جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کاحصہ تھے۔ دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی یہاں تک کہ تاتاری اپنے ہی وطن میں اقلیت بن گئے اور وہ کریمیا کی آبادی کا 13 فی صد رہ گئے۔ 1944ء اور اس کے بعد کریمیا کے لوگوں کی آبادی کو ریاستی اقدامات سے کم کیا گیا۔ اول تو تاتاریوں کو جبری طور پر روس کے دیگر علاقوں کو بھیجا گیا جن کی اکثریت کو جبری مشقت کے لیے سائیبیریا لے جایا گیا۔ دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے گئے۔ کریمیا سے نکالے جانے والے لوگ مسلمان تھے اور بسائے جانے والے لوگ تمام کے تمام غیر مسلم تھے۔[12]