معرکہ ردع العدوان، 2024ء
سنہ 2024ء میں شام میں بشار الاسد کی فوج اور اس کی دوسری وفادار افواج کے خلاف ہیئت تحریر الشام اور مشترکہ دھڑوں کی طرف سے ایک عسکری آپریشن From Wikipedia, the free encyclopedia
Remove ads
27 نومبر 2024ء کو بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج کے گروہوں کے ایک اتحاد، عسکری عملیات کمان[34] جس کی قیادت ہیئت تحریر الشام (HTS) کرتی ہے اور شامی وطنی فوج (SNA) کے اندر موجود ترک حمایت یافتہ اتحادی گروہوں[35][36][37] نے شام کے صوبہ ادلب، صوبہ حلب اور صوبہ حماہ میں حکومت نواز شامی عرب افواج (SAA) کے خلاف حملہ آور کارروائیوں کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ اس عملیہ (آپریشن) کو تحریر الشام کی جانب سے ردع العدوان (جارحیت کا مقابلہ) کا نام دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ یہ مغربی حلب کے دیہی علاقوں میں شہریوں پر حکومت نواز شامی عرب فوج کی بڑھتی ہوئی گولہ باری کے جواب میں شروع کیا گیا ہے۔[38] شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج نے مارچ 2020ء کو ادلب میں جنگ بندی کے بعد پہلی بار اس عسکری حملے کی مہم کا آغاز کیا۔[39][40]
29 نومبر 2024ء کو تحریر الشام اور بعد میں کُرد سوری (شامی) جمہوری افواج (SDF) حلب میں داخل ہوئیں اور حکومت کی حامی افواج کے خاتمے کے اثنا میں شہر کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔ اگلے دن، معارضہ سوریہ (بشار الاسد حکومت کی مخالف) افواج نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے درجنوں قصبوں اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا کیونکہ حکومت کی حامی قوتیں منتشر ہوئیں اور وسطی شام میں حماہ کی طرف پیش قدمی کی، بعد ازاں 5 دسمبر کو اس پر قبضہ کر لیا۔[41][42] 6 دسمبر تک، کُرد شامی جمہوری افواج نے فرات کے مشرق میں ایک جارحانہ حملہ میں دیر الزور پر قبضہ کر لیا اور جنوبی آپریشن غرفہ (روم) اور الجبل بریگیڈ نے جنوبی شام میں جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے درعا اور سویداء پر قبضہ کر لیا، جبکہ تحریر الشام نے حمص کی طرف پیش قدمی کی۔[43][44] امریکی حمایت یافتہ سوری حریت فوج نے ملک کے شمال مشرق میں تدمر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔[45]
7 دسمبر 2024ء کو معارضہ سوریہ کی افواج جنوب سے محافظہ ریف دمشق میں داخل ہوئیں اور دار الحکومت دمشق کے 10 کلومیٹر کے اندر آگئیں۔[46][47] بعد ازاں معارضہ سوریہ کی افواج کے دار الحکومت کے نواحی علاقوں میں داخل ہونے کی اطلاع ملی۔[48] سوری حریت افواج (SFA) بھی جنوب مشرق سے دار الحکومت کی طرف بڑھیں۔[49] 8 دسمبر تک انھوں نے حمص پر بھی قبضہ جما لیا، جس کی وجہ سے شام (سوریہ) کے ساحل سے بشار الاسد کی افواج کا تعلق منقطع ہو گیا۔[50] مبینہ طور پر بشار حکومت کی مخالف افواج شام کے دار الحکومت دمشق میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔[51]
8 دسمبر 2024ء کو مزاحمتیوں نے دار الحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا اور بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک پر اسد خاندان کی 53 سالہ طویل حکمرانی کا خاتمہ کیا۔[52]
Remove ads
پس منظر
مارچ 2020ء کے ادلب جنگ بندی معاہدے کے بعد سے شمال مغربی شام میں مزاحمتیوں اور حکومت کی حامی افواج کے درمیان بڑے پیمانے پر کارروائیاں بند ہو گئیں۔[53][8] تاہم، شمال مغربی شام میں موجود مزاحمت کے گروہوں نے عداوت کی بحالی کی داغ بیل لگائی، خاص طور پر تحریر الشام نے اپنے ڈھانچے کو "رسمی مسلح قوت" میں تبدیل کرکے، تربیت کو بہتر بنا کر اور چھاپوں اور رات کے وقت کی کارروائیوں میں مہارت رکھنے والی خصوصی افواج کو منظم کر کے اپنی عسکری صلاحیتوں کو مضبوط کیا۔[8] کیئو پوسٹ (Kyiv Post) کے مطابق کچھ اسلام پسند سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کہا گیا کہ ادلب میں موجود باغیوں کو یوکرین کے مین ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کی طرف سے کچھ تربیت اور دیگر مدد فراہم کی گئی۔[54] دریں اثنا شامی حکومت کو بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا سامنا کرنا پڑا، محقق چارلس لِسٹر نے اسے "دنیا کی سب سے بڑی نارکو ریاست" قرار دیا جس کی "بدعنوان کاروباری اشرافیہ اور فوجی کمانڈروں، ملیشیا رہنماؤں اور جنگجوؤں کا ایک طاقتور نیٹ ورک" منشیات خاص طور پر کیپٹاگون کی تجارت سے آمدنی بٹورتے ہیں۔[8] سنہ 2022ء کے اواخر سے تحریر الشام کی فوج نے سرکاری افواج پر دراندازی اور سنائپر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں جارحانہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ جوابی اقدام میں صوبہ اِدلب پر گولہ باری کے ساتھ ساتھ روسی فضائی حملے بھی ہوئے۔[55] شہر حلب سنہ 2016ء میں حلب پر حملہ کے بعد سے بشار الاسد کی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر تسلط تھا۔[53][8]
تحریر الشام کے عسکری وِنگ کے سربراہ ابو حسن الحموی کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی اس کے آغاز سے ایک سال قبل کی گئی تھی۔ سنہ 2019ء کے آغاز میں تحریر الشام نے ایک عسکری نظریہ تیار کیا جس کا مقصد بے قاعدہ منظم شدہ مزاحمت کاروں اور جہادی جنگجوؤں کو ایک رسمی فوجی قوت میں تبدیل کرنا تھا۔ اس گروپ نے خصوصی ترتیب یافتہ فوجی شاخیں قائم کیں، خصوصاً ایک ڈرون یونٹ قائم کیا جو جاسوسی، حملہ اور خودکُش ڈرون تیار کرتا تھا۔ تحریر الشام نے جنوبی شام میں مزاحمت کاروں کے ساتھ بھی ہم آہنگی قائم کی، ایک متحد کمانڈ ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں تقریباً 25 مزاحمت کرنے والے گروہوں کے لیڈران کو شامل کیا گیا، جس کا تزویراتی مقصد دمشق کو متعدد سمتوں سے گھیرنا تھا۔[56] تحریر الشام نے اس حملے کا آغاز جزوی طور پر اس لیے کیا تھا تاکہ بشار الاسد حکومت کے ساتھ علاقائی قوتوں کے سفارتی معمول کو تہ و بالا کیا جا سکے اور شمال مغربی شام پر بڑھتے ہوئے فضائی حملوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ تحریر الشام نے آشکار کیا کہ بشار اسد کے بین الاقوامی اتحادی تزویراتی طور پر مجبور تھے، روس یوکرین کے ساتھ اپنی جنگ کے لیے پرعزم تھا اور ایران اور حزب اللہ دونوں اسرائیل کے ساتھ مُڈبھیڑ میں مصروف تھے، جو ایک سازگار تدبیراتی موقع تھا۔[56]
اکتوبر 2024 میں حلب کے دیہی علاقوں میں تحریر الشام اور سرکاری افواج کے مابین حالت جنگ کی کیفیت پیدا ہو گئی، کیونکہ شامی مزاحمت کاروں نے اطلاع دی تھی کہ وہ حلب شہر کے اندر سرکاری افواج کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔[57] 26 نومبر 2024ء کو سرکاری افواج کے توپ خانے نے شامی مزاحمت کاروں کے زیر قبضہ قصبہ اریحا پر حملہ کیا، جس میں 16 شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔[58]
Remove ads
حواشی
- روسی اور سوری عرب فوج کے فضائی اور توپ خانے کے حملوں میں 95 اور تحریر الشام کی گولہ باری سے 13 ہلاک ہوئے۔[27]
حوالہ جات
Wikiwand - on
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Remove ads