دمشق کی جنگ، 2024ء
شامی خانہ جنگی کے دوران میں ایک عسکری محاربہ From Wikipedia, the free encyclopedia
Remove ads
7 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد کی مخالف شامی افواج کے غُرفہ عملیات جنوبیہ (جنوبی آپریشن روم) کی افواج جنوب سے ریف دمشق کے علاقے میں داخل ہوئیں اور دار الحکومت دمشق کے 20 کلومیٹر (12 میل) کے اندر آگئیں۔ شامی عرب فوج (بشار الاسد حکومت نواز فوج) متعدد مضافاتی مقامات میں شکست سے دو چار ہوئی۔[7] دمشق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج تحریر الشام اور سوری وطنی فوج نے حمص میں حملہ کی کارروائی کا آغاز کیا،[8] جب کہ شامی حریت فوج (SFA) نے جنوب مشرق سے دار الحکومت کی طرف پیش قدمی کی۔[9] 8 دسمبر تک بشار حکومت کی مخالف افواج شہر کے برزہ محلہ میں داخل ہو گئیں۔[10] سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بشار الاسد ہوائی جہاز کے ذریعے دمشق سے کسی نامعلوم مقام کی طرف منتقل ہو گئے جب کہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی ان کے دار الحکومت سے فرار ہونے کی خبر دی۔[11]
Remove ads
ابتدا
حماہ ہاتھ سے نکلنے کے بعد بشار کی حکومتی افواج نے مشرقی غوتہ، بشمول دوما اور حرستا سے اپنے فوجیوں کو اس کے داخلی اور خارجی راستوں پر دوبارہ تعینات کرنا شروع کیا۔[12]
ایران نے 6 دسمبر کی صبح شام (سوریہ) سے اپنے اہلکاروں کو واپس بلانا شروع کر دیا، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ قدس کے اعلیٰ کمانڈروں کو واپس بلایا گیا اور دمشق میں ایرانی سفارت خانے اور شام بھر میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اڈوں سے انخلاء کا حکم دیا۔ شام سے بچ نکل کر ایرانی فوج لبنان اور عراق کی طرف روانہ ہوئی۔[13]
حمص پر قبضے نے دمشق کو بشار الاسد کے ساحلی گڑھ طرطوس اور لاذقیہ سے کارگر طریقے سے منقطع کر دیا۔[14]
7 دسمبر کے آغاز تک باغیوں نے صوبہ درعا اور صوبہ سویداء کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا اور حکومت کی بعض حامی فوجوں کو دمشق کی طرف محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔[15][14]
Remove ads
معرکہ
مزاحمتیوں کا جنوب سے دمشق میں داخلہ
7 دسمبر کو شامی مزاحمتیوں نے اعلان کیا کہ انھوں نے قریبی قصبوں پر قبضہ کرنے کے بعد دمشق کو گھیرے میں لینا شروع کر دیا، بشاری حکومت کے مخالف گروہ کے کماندار حسن عبد الغنی نے خیال ظاہر کیا کہ ان کی افواج دار الحکومت دمشق کو گھیرے میں لینے مرحلہ میں ہیں۔[16] باغیوں نے دمشق کے جنوبی داخلے سے 20 کلومیٹر (12 میل) دور واقع قصبہ صنمین پر قبضہ کرنے کے بعد دار الحکومت کا گھیراؤ شروع کر دیا۔[17]
ریف دمشق کے صوبہ میں حکومت کی حامی افواج عسال الورد، یبرود، فلیطہ، ناصریہ اور عرطوز کے قصبوں سے پیچھے ہٹ گئیں، جب کہ مخالف افواج دمشق کے 10 کلومیٹر (6.2 میل) کے اندر آگئیں۔[18] بشاری حکومت نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوج شہر کے قریب کی پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔[19] شام کے وقت تک حکومت کی حامی افواج دمشق کے مضافات میں واقع قصبوں سے نکل گئیں، جن میں جرمانا، قطنا، معضمیہ الشام، داریا، الکسوہ، الضمیر، درعا اور مزہ ایئر بیس کے قریب کے مقامات شامل تھے۔[20]
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شامی باغی دمشق کے مضافاتی علاقوں جرمانا، معضمیہ اور داریا میں سرگرم تھے اور مشرق سے حرستا کی طرف مارچ کر رہے تھے۔[21] جرمانا کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے حافظ الاسد کا مجسمہ گرا دیا۔[22][23] شام کے وقت کو بشاری حکومت کی حامی افواج مبینہ طور پر کئی مضافاتی علاقوں سے پیچھے ہٹ گئیں جہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔[24]
سوری حریت فوج کا شمال سے دمشق میں داخلہ
جوں ہی جبہہ جنوبیہ کی افواج دمشق کے مضافات میں آگے بڑھِیں، سوری حریت فوج (سیریئن فری آرمی) کے تدمر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد شمال سے دار الحکومت کے قریب آنے کی اطلاع موصول ہوئی۔[9][25]
اخبار دی گارڈین کے مطابق، ویڈیو میں بشار کی فوجوں کو دمشق کی گلیوں میں اپنی وردیاں اتارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔[14]
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی نے دمشق کے مضافات میں سڑکوں پر مسلح رہائشیوں کو دیکھنے اور شہر کے مرکزی پولیس صدر دفاتر کو ویران پائے جانے کی اطلاع دی۔ دار الحکومت کے مرکزی چوکیوں میں ٹینکوں کی نقل و حرکت کی اطلاع ملی، جبکہ مساجد سے "اللہ اکبر" کی صدائیں بَلند ہوئیں۔ بشار حکومت کے حامی شام ایف ایم ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ دمشق ہوائی اڈے کو خالی کرا لیا گیا ہے اور تمام پروازیں روک دی گئی ہیں۔[11]
رات کے وقت بشاری حکومت کے مخالفیں نے اعلان کیا کہ دمشق میں اعلی سرکاری عہدے داروں اور فوجی افسران کا ایک "گروہ" معارضہ سوریہ میں جُڑنے کی تیاری کر چکا ہے۔[26] مزاحمتی گروپ تحریر الشام نے اعلان کیا کہ انھوں نے صیدنایا جیل سے قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا اور یہ کام تبھی ممکن ہوتا ہے جب حکومت کسی کے کنٹرول میں ہو۔[27]
8 دسمبر کے ابتدائی گھنٹوں میں سوری مشاہدہ گاہ برائے انسانی حقوق نے اطلاع دی کہ اعلی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ دمشق کے ہوائی اڈے سے نجی پرواز کی روانگی کے بعد حکومت گر چکی ہے جس کے نتیجہ میں بشار کی سرکاری افواج درہم برہم ہو گئی۔[28]
8 دسمبر تک مزاحمتیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور بشار الاسد فرار ہو گئے۔ مزاحمتی شخصیات کے ایک گروہ نے شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات پر اپنی فتح کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے مزاحمتیوں کے ساتھ "ہاتھ ملانے" کی اپنی تیاری کا اظہار کیا۔ سوری عرب فوج کی کمان کی جانب سے دو متضاد بیانات جاری کیے گئے: ایک شکست کا اعتراف اور دوسرا "دہشت گرد گروہوں" کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنے کے لیے عزم کا اظہار، خاص طور پر حمص، حماہ اور درعا میں۔[27]
Remove ads
بشار الاسد کے ٹھکانے
شام کے سرکاری میڈیا نے ابتدائی طور پر ان الزامات کی تردید کی کہ شامی صدر بشار الاسد دمشق سے فرار ہو گئے ہیں، انھیں "افواہیں اور جھوٹی خبریں" قرار دیا۔[29] صورت حال سے واقف ایک ذرائع نے بتایا کہ بشار دمشق میں کسی بھی متوقع مقام پر نہیں مل سکے جہاں وہ عام طور پر موجود ہوتے ہیں۔ بشار کی خصوصی فوج حرس جمہوریہ سوریہ اب ان کی معمول کی رہائش گاہ پر تعینات نہیں رہی۔ 7 دسمبر 2024ء کی شام تک باغی افواج کو بشاع الاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملی اور انھوں نے ان کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی۔[30] اعلی شامی افسران نے بعد میں یہ اطلاعات دیں کہ بشار دمشق سے ایک طیارے میں فرار ہو کر نامعلوم مقام پر پہنچ چکے ہیں۔[31] روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ دو نامعلوم شامی ذرائع نے اشارہ کیا ہے کہ اس بات کا "بہت زیادہ امکان" ہے کہ بشار الاسد ہوائی جہاز 9218 کے حادثے میں ہلاک ہو چکے تھے۔[32]
بعد ازاں روس کی سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ بشار الاسد فرار ہو کر ماسکو آ چکے ہیں۔[33][34] اور انھیں روس میں پناہ دے دی گئی ہے۔[35]
حوالہ جات
Wikiwand - on
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Remove ads