![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/b/b6/%25D8%25A3%25D8%25A8%25D9%2588_%25D8%25A8%25D9%2583%25D8%25B1_%25D8%25A7%25D9%2584%25D8%25B5%25D8%25AF%25D9%258A%25D9%2582.gif/640px-%25D8%25A3%25D8%25A8%25D9%2588_%25D8%25A8%25D9%2583%25D8%25B1_%25D8%25A7%25D9%2584%25D8%25B5%25D8%25AF%25D9%258A%25D9%2582.gif&w=640&q=50)
ابوبکر صدیق
خلیفہ اول، خلیفہ راشد، سسرِ محمد، صحابی محمد / From Wikipedia, the free encyclopedia
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
![](http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/4/46/Disambigua_compass.svg/20px-Disambigua_compass.svg.png)
ابوبکر صديق عبد اللہ بن عثمان ابوقحافہ | |
---|---|
![]() | |
ولادت | بعد عام الفيل دو برس و چھ ماہ (50 ق ھ / 574ء) مكہ، تہامہ، عرب |
وفات | جمادی الاول 13ھ / 23 اگست 634ء مدینہ منورہ، حجاز، عرب |
محترم در | اسلام: اہل سنت و جماعت، اباضیہ، دروز، زیدیہ شیعہ |
مزار | مسجد نبوی، ہمراہ النبی محمد و عمر بن الخطاب، مدينہ منورہ |
نسب | والد: ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو التیمی القرشی والدہ: ام الخیر سلمى بنت صخر بن عامر التیمیہ القرشیہ ازواج: قتيلہ بنت عبد العزى، ام رومان بنت عامر، اسماء بنت عمیس، حبیبہ بنت خارجہ۔ بیٹے: عبد الرحمن، وعبد اللہ بن ابی بکر، محمد۔ بیٹیاں: اسماء، عائشہ، ام كلثوم۔ |
ابوبکر صدیق عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلام محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انھوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں گرفتار ہوئے تو ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر اسلام نے وفات پائی اور اسی دن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ابوبکر صدیق نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد امام ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں خلیفہ اول ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے اور حضرت عمر بن خطاب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان کے جانشین ہوئے۔اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلیٰ و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی، محمد بن سائب کلبی، سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسماء الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے اور حضرت ابوبکر صدیق کا خلیفہ بلافصل ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔