From Wikipedia, the free encyclopedia
اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "گھر والے " کے ہیں۔
مقالات بسلسلۂ محمد | |
---|---|
محمد | |
باب محمد | |
ادوار
مدنی دور
اہل بیت
|
انھیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا (اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔)
لفظ ’اہل‘ نسبی رشتے داری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایمانی تعلق کے لیے بھی۔ نسبی رشتے داری مراد ہو تو دیگر رشتے داروں کے ساتھ ساتھ اس سے مراد بیوی بھی ہوتی ہے۔ بلکہ بیوی سب سے پہلے اہل میں آتی ہے۔
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔[حوالہ درکار]
شیعہ نقطہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، آپ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام امام حسن رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اورحضرت امام حسین رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ شامل ہیں۔ یہ تمام افراد اصحاب کساء کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
اہلسنت کے نکتہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، آپ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور ان کے صاحبزادے حضرت امام امام حسن رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اورحضرت امام حسین رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ شامل ہیں۔
بعض سنی علما خلافت عباسیہ کے بانی حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کرتے ہیں۔[حوالہ درکار]
قرآن مجید میں واضح الفاظ میں ازواج مطہرات کو اہل بیت کہا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ’اہل بیت‘ تین جگہ استعمال ہوا ہے اور تینوں جگہ ’خاتونِ خانہ‘ کے لیے۔
قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ۔[3]
فرشتے بولے کیا اللہ کے کام کا اچنبھا کرتی ہو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم پر اس گھر والو! بیشک وہی ہے سب خوبیوں والا عزت والا۔
آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے۔
دوسری جگہ قرآن میں ہے
وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ۔[4]
اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کر دی تھیں تو بولی کیا میں تمھیں بتا دوں ایسے گھر والے کہ تمھارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں۔
اس سے مراد ام موسیٰ ہے
تیسری جگہ قرآن میں ہے
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا۔[5]
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ تو یہی چاہتا ہے ، اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمھیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔
امام سیوطی نے جلالین میں اھل بیت سے مراد سارے اھل بیت اللہ لی ہے ،کیونکہ ان کے لیے بیت اللہ بناتے وقت دو نبیوں نے دعا فرمائی تھی! وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (127) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ (ای فی اھل البیت )رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (129)
بہت ساری احادیث ہیں نبی کی کہ اہلبیت میں علی،فاطمہ،حسن اور سیدنا حسین رضوان اللہ اجمعین شامل ہیں؛
یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پزیر نہیں ہے۔ بڑے اور نامی گرامی محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے؛ یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے اور حتی وسیع تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور جو خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔[6] طبری اپنی کتاب دلائل الإمامۃ میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبر(ص)؛ علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انھیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:
"اَللهُمَّ هٰؤُلاِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً"۔ بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انھیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"[7]
ام المومنین ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ (طبرانی؛ العجم الکبیر ج 3 - طبری جامع البیان فی تفسیر القراآن ج 22)
انس بن مالک فرماتے ہیں نبی اکرم سے عرض کیا گیا: آپ کو اہلبیت میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ آپ نے فرمایا حسن اور حسین سے ۔ (ترمذی - ابولمناقب - درالسحابة فی مناقب القرابة و الصحابة)
اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "گھر والے " کے ہیں۔ انھیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا (اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔ )
اثناعشریہ(یعنی بارہ امام)،اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑہ گروہ ماننا جاتا ہے۔ قریبا 80 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران، آذربائجان، لبنان، عراق اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ پاکستان میں اہل سنت کے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اثنا عشریہ کی اصطلاح بارہ ائمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد اور داماد علی علیہ السلام سے شروع ہوتا۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین امام علی علیہ السلام ہیں اور کل بارہ امام ہیں جن کا تذکرہ احدیث میں آتا ہے۔ کم و بیش تمام مسلمان ان ائمہ کو اللہ کے نیک بندے مانتے ہیں تاہم اثنا عشریہ اہل تشیع ان ائمہ پر اعتقاد کے معاملہ خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ ان بارہ ائمہ کے نام یہ ہیں :
مسلمانوں کی بہت ساری کتب میں بار خلفا کا ذکر موجود ہے کہ رسولﷲ کے بعد بارہ جانشین ہوں گے۔نقبائے بنی اسرائیل کی طرح میری امت کے بھی بارہ خلیفہ ہوں گے۔
میں نے رسول خدا(ص) سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کھتے ہیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نہیں سنا جس میں آنحضرت(ص) نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا: وہ جملہ جو تم نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
”…جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعته، یقول: لایَزَالُ هذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْها الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلهم من قریش“.[9]
ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا(ص) میں مشرف ہوا تو میں نے رسول(ص) سے سنا :آپ فرما رہے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رہے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہو گئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔ اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اھل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعده۔ [10]
آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا۔
سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم ک ا سبب یہ ہے کہ اس وقت ان حضرت(ع) کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حاصلہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاھرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ہیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مھدی) مرقوم ہے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا :قیامت واقع نہیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت ( خاندان )سے میرا ھمنام، جانشین ظاہر ھو کر عرب پر مسلط نہ ھو جائے۔ اس کے بعد نووی کھتے ہیں : ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور سنن داوٴد میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ہے : ” وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔“
”کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ“.[12] تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ہیں : اس امت میں امام مھدی (ع)کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی (ع) کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ہے۔[13]
بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ہیں : ”حضرت عیسی (ع) کا اس امت مسلمہ کے امام مھدی(ع) کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قائل ہیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نہیں ، وہ درست ہے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ہے۔[14]
” حضرت عیسیٰ(ع) کا آخری زمانہ میں امام مھدی(ع) کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ہے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لیے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ(ع) کو امام مھدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول (ص)اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاھتا ہے۔“[15]
"امام قندوزی حنفی" اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد بعض محققین کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہتے ہیں: جب ہم ان احادیث پر غور و فکر کرتے ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرم(ص) کے بعد بارہ خلیفے ہوں گے، تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان احادیث میں رسول اکرم کی مراد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جو سب کے سب پیغمبر اکرم کی اہل بیت میں سے ہیں۔ کیونکہ اس کے بقول اس حدیث کو کسی طرح بھی خلفائے راشدین پر تطبیق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہیں، اسی طرح اسے بنی امیہ یا بنی عباس کے سلاطین پر بھی تطبیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان دو سلسلوں میں سے ہر ایک میں بارہ سے زیادہ حکمران رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ ان میں بعض افراد نہایت ہی ظالم اور سفاک قسم کے لوگ تھے اور بعض تو بالکل اسلامی احکام کے پابند بھی نہیں تھے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے، اس کے علاوہ بنی امیہ، بنی ہاشم میں سے بھی نہیں ہیں جبکہ پیغبر اکرم(ص) نے ان احادیث میں ان سب کے قبیلہ بنی ہاشم میں سے ہونے پر تاکید فرمائی ہیں۔
پس ناچار اس حدیث کو شیعوں کے بارہ اماموں پر تطبیق کرنا پڑے گا جو سب کے سب پیغمبر اکرم(ص) کی اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ یہ اشخاص اپنے زمانے کے سب سے زیادہ دین سے آشنا اور علم و آگاہی میں کوئی بھی ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور فضل و کرم اور تقوی و پرہیزگاری میں میں یہ ہستیاں ہر زمانے میں زبان زد عام و خاص تھے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ان ہستیوں کو یہ علوم اپنے نانا پیغمبر اکرم(ص) سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسی طرح حدیث ثقلین اور اس طرح کی دوسری احادیث اس نظریے کی تائید کرتی ہیں۔ [16]
اہل تشیع اور دوسرے مسلمانوں میں ان کے وجود کے دور اور ظہور کے طریقوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
چھٹے امام جعفر صادق کی وفات پر اہل تشیع کے گروہ ہو گئے۔ جس گروہ نے ان کے بیٹے اسماعیل کو، جو والد کی حیات میں ہی وفات پا گئے تھے، اگلا امام مانا وہ اسماعیلی کہلائے۔ اس گروہ کے عقیدے کے مطابق اسماعیل بن جعفر ان کے آخری امام ہیں۔
جس گروہ نے حضرت موسی کاظم علیہ السلام کو اگلا امام مانا وہ اثنا عشری کہلائے کیونکہ یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔
حدیث کساء
حضرت جابر بن عبد اللہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انھوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انھیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انھوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انھیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انھیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انھیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک
فرقہ کا لفظ فرق سے بنا ہے جس کے معنی مختلف یا الگ کرنے یا تمیز کرنے کے ہوتے ہیں، مگر جب بات مذہب کی ہو تو اس سے مراد اختلاف، قطع یا منحرف کی لی جاتی ہے یعنی کسی ایک مذہب میں اس کے ماننے والوں میں ایسے گروہ واقع ہونا کہ جن میں آپس میں متعدد یا چند امور یا ارکان یا خیالات میں (واقعتاً یا مجازاً) اختلاف پایا جاتا ہو اور وہ ایک دوسرے سے انحراف رکھتے ہوں، اس مذہب کے فرقے کہلاتے ہیں اور یہ عمل فرقہ بندی کہلاتا ہے۔ فرقہ کی جمع ؛ فرقے یا فرقات کی جاتی ہے
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.