شاہراہ قراقرم
From Wikipedia, the free encyclopedia
این-35 | |
---|---|
Karakoram Highway شاہراہ قراقرم | |
Route information | |
Part of AH4 ایشین ہائی وے نیٹ ورک 4 | |
Maintained by نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور محکمہ نقل و حمل سنکیانگ (چین) | |
Length | 1,300 کلومیٹر (800 میل) پاکستان: 887 کلومیٹر (551 میل) چین: 413 کلومیٹر (257 میل) |
Existed | 1966–present |
History | تکمیل 1979، عوامی افتتاح 1986 |
Major junctions | |
شمالی end | کاشغر، شنجیانگ، چین چین نیشنل ہائی وے 314 (درہ خنجراب–کاشغر–ارومچی) درہ خنجراب |
Major intersections | قومی شاہراہ 35 قومی شاہراہ 15 |
جنوبی end | حسن ابدال، پنجاب، پاکستان |
Location | |
Country | پاکستان |
Major cities | ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، بشام، پتن، کوہستان، داسو, چلاس، گلگت، علی آباد، ہنزہ، گلمیت، سوست، تاشقورغان، Upal، کاشغر |
Highway system | |
|
شاہراہ قراقرم | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
چینی نام | |||||||
سادہ چینی | 喀喇昆仑公路 | ||||||
| |||||||
اردو نام | |||||||
اردو | شاہراہ قراقرم śāharāha qarāqaram |
شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔
یہ بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔
شاہراہ ریشم کا وجود انسانی تخلیقی ہنر کا ایک ادنیٰ سا منظر ہے۔ معروف حیثیت میں اباسین یعنی دریائے سندھ جسے آریاؤں نے سندھو کہا ، چین والوں نے اسے چام لوہو کہا ،فارس کے دارا اعظم نے اسے بدو کا نام دیا، سکندر اعظم مقدونی نے اس دریا کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے یونانی زبان کے تلفظ میں اسے سندوس کہا، لاطینی میں اسے سندس کہا گیا، عربوں نے اس دریا کے جلال و جمال کی آمیزش کو محسوس کرتے ہوئے اسے بحرالذھب کے نام سے پکارا یعنی سونا اگلنے والا دریا۔ دیگر مسلمان مؤرخین و جغرافیہ دانوں نے اس کے پانی کی نیلی رنگت کا پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نیلاب کہا، لداخ کے باشندوں نے اسے سانگ پو کہا تبت کے لوگوں نے اسے سنگ کہا جبکہ کئی لوگوں نے اسے سدرہ یا سوہدرہ بھی کہنا شروع کر دیا ۔ غرض کہ اس دریا کو جس جس قوم و وطن کے لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں جو بھی نام دیا اس کی قدامت و عظمت اور بساط و شوکت کے اظہار میں کوئی بخل نہ برتا اور یہ دریا متعدد دانشوروں اور شعرا کے ادبی مجموعوں کی بھی زینت بنتا رہا۔ پشتو زبان کے اس اباسین یعنی دریاؤں کے باپ کی سطح ساحل پر بنائی جانے والی شاہراہ کبھی دریا کے دائیں اور کبھی بائیں ساحل پر ایک فنکار رقاصہ کی طرح یو ںرقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے
دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔
شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔