مقبرہ ہمایوں
From Wikipedia, the free encyclopedia
ہمایوں کا مقبرہ بھارت کے شہر دہلی میں واقع مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا مقبرہ ہے[1] جو اس کی بیوی حمیدہ بانو بیگم نے 1562ء میں بنوایا۔[2] [3] [4] [5] 1558 میں اور اس کا ڈیزائن میرک مرزا غیاث اور اس کے بیٹے سید محمد نے بنایا تھا۔[6] یہ مقبرہ لال پتھر سے بنا ہوا ہے۔ اس کے احاطے میں دوسری شخصیات کے بھی مقبرے موجود ہیں۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اس کا اندراج ہوا ہے۔ اس طرح کے طرزِ تعمیر کا نمونہ ہندوستان میں اوّلین ہے۔[7] اس میں ہندوستانی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔[8] یہاں مقبرۂ ہمایوں کے علاوہ دوسرے مقبرے اور مساجد بھی ہیں۔ اس لیے "مغلوں کی بسترگاہ" کے نام سے بھی یہ یادگار جانی جاتی ہے۔ مقبرۂ عیسیٰ خاں، مقبرۂ بوحلیمہ، افسروالا مقبرہ، نائی کا مقبرہ وغیرہ مقبرۂ ہمایوں کے احاطے میں موجود ہیں۔ اس مقبرے کو 1993 میں یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔[9]
ہمایوں کا مقبرہ | |
جگہ |
متھرا روڈ، مشرقی نظام الدین، دہلی، بھارت |
بنانے والا |
حمیدہ بانو بیگم |
سالِ تعمیر | 1562ء |
مستری | مرزا غیاث |
اس کمپلیکس میں شہنشاہ ہمایوں کا مرکزی مقبرہ شامل ہے، جس میں مہارانی بیگم ، حاجی بیگم اور ہمایوں کے پڑپوتے اور بعد کے شہنشاہ شاہ جہاں کے بیٹے دارا شکوہ کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مغل جن میں شہنشاہ جہاندار شاہ ، فرخ سیار ، رفیع الدرجات ، رفیع الدولت ، محمد کام بخش اور عالمگیر دوم شامل ہیں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ [10] [11] اس جگہ کا انتخاب دریائے جمنا کے کنارے نظام الدین درگاہ سے قربت کی وجہ سے کیا گیا تھا، جو دہلی کے مشہور صوفی بزرگ نظام الدین اولیاء کا مقبرہ ہے، جن کی دہلی کے حکمرانوں کی طرف سے بہت زیادہ تعظیم کی جاتی تھی۔ بعد کی مغل تاریخ میں، آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے 1857 کی ہندوستانی بغاوت کے دوران تین شہزادوں کے ساتھ یہاں پناہ لی تھی۔ [12] خاندان غلاماںکے زمانے میں یہ سرزمین 'کلوخیری قلعہ' کے تحت تھی جو سلطان قیق آباد ، ناصر الدین (1268-1287) کے بیٹے کا دار الحکومت تھا۔