خالد بن ولید
عرب کے سپہ سالار اور صحابی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم / From Wikipedia, the free encyclopedia
خالد بن ولید ابن مغیرہ رضی اللہ عنہ (28ق.ھ / 22ھ) آپ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے ہیں ۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں ۔ آپ بہادری اور فن سپہ گری و تدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی اور ان کے باپ ولید کی اسلام دشمنی مشہور تھی ۔جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ رہے اور ان سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہو گیا کہ 7ھ میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر دربار رسالت میں حاضر ہو گئے اور دامن اسلام میں آگئے اور یہ عہد کر لیا کہ اب زندگی بھر میری تلوار کفار سے لڑنے کے لیے بے نیام رہے گی چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیر بکف رہے یہاں تک كه 8ھ میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ وحضرت جعفر بن ابی طالب وحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کر لیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور انھوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کی فتح مبین ہو گئی ۔ اور اسی موقع پر جب کہ یہ جنگ میں مصروف تھے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ”(اللہ کی تلوار) کے خطاب سے سرفراز فرمایا ۔امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا تو انھوں نے ان معرکوں میں بھی خصوصاً جنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اور ہر محاذ پر فتح مبین حاصل کی۔پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انھوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی اور بہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں 22ھ میں چند دن بیماررہ کر وفات پائی ۔ [1] موتہ کی جنگ کے دوران، خالد بن ولید نے بازنطینیوں کے خلاف مسلم فوجوں قیادت کی۔ اور انھوں نے 629-630 میں مکہ کی مسلمانوں کی فتح اور 630ء میں حنین کی جنگ کے دوران مسلم فوج کے تحت بدویوں کی قیادت کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، خالد بن ولید کو نجد اور یمامہ میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ ان عرب قبائل کو دبایا جائے جو نوزائیدہ مسلم ریاست کے مخالف تھے۔ اس مہم کا اختتام بالترتیب 632 میں جنگ بزاخہ اور 633ء میں یمامہ کی جنگ میں عرب باغی رہنماؤں طلیحہ بن خویلد اور مسیلمہ کذاب پر خالدبن ولید کی فتح پر ہوا۔
مکمل
خالد بن ولید سیف اللہ، الله کی تلوار | |
---|---|
پیدائش | مکہ |
وفات | 642ء مدینہ منورہ یا حمص، خلافت راشدہ |
ممکنہ تدفین کی جگہ | مسجد خالد بن ولید، حمص، سوریہ |
وفاداری | قریش (625ء – 627ء یا 629ء) محمد بن عبد اللہ (627ء یا 629ء– 632ء) خلافت راشدہ (632ء – 638ء) |
سروس/ | خلافت راشدہ کی فوج |
سالہائے فعالیت | 629ء–638ء |
آرمی عہدہ |
|
مقابلے/جنگیں |
|
شریک حیات | اسماء بنت انس بن مدرک ام تمیم بنت منھال |
اولاد | سلیمان عبد الرحمٰن مہاجر |
اس کے بعد خالد بن ولید نے عراق میں فرات کی وادی میں عیسائی عرب قبائل اور ساسانی سلطنت فوجوں کے خلاف حرکت میں آئے۔ انھیں ابوبکر نے شام میں مسلم فوجوں کی کمان کرنے کے لیے دوبارہ تفویض کیا تھا۔ جنگ اجنادین (634)، جنگ فحل (634 یا 635)، محاصرہ دمشق (634-635) اور جنگ یرموک (636) میں خالدبن ولید کی قیادت میں بازنطینیوں کے خلاف فیصلہ کن فتوحات حاصل کیں۔ جس کے نتیجے میں، راشدین فوج نے لیونٹ کا بیشتر حصہ فتح کر لیا۔ خالدبن ولید کو بعد ازاں عمر بن خطاب کے ذریعے فوج کی اعلیٰ کمان سے ہٹا دیا گیا۔ خالد نے اپنے جانشین ابو عبیدہ بن جراح کے ماتحت حمص اور حلب کے محاصروں اور جنگ حاضر میں خدمات انجام دیں۔ اس جنگوں میں شہنشاہ ہرقل کے ماتحت شام سے سامراجی بازنطینی فوجوں نے پسپائی اختیار کی۔ اس فتح کے بعد عمر بن خطاب نے خالدبن ولید کو 638ء میں جند قنسرین کی گورنری سے برطرف کر دیا۔ ان کا انتقال مدینہ منورہ یا حمص میں 642 ءمیں ہوا۔
انھیں عام طور پر مورخین ابتدائی اسلامی دور کے سب سے تجربہ کار اور کامیاب جرنیلوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ اسلامی روایت خالدبن ولید کو ان کی جنگی حکمت عملیوں اور امسلمانوں کی فتوحات کی موثر قیادت کا سہرا دیتی ہے۔ ابو سلیمان خالد بن ولید تاریخ کے ان چند فوجی کمانڈروں میں سے ایک ہیں۔ جنھوں نے ساری زندگی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ خالد بازنطینی رومی سلطنت، فارسی ساسانی سلطنت اور ان کے اتحادیوں کے اعلیٰ افواج کے خلاف سو سے زائد لڑائیوں میں ناقابل شکست رہے۔ [2] [3][4]